میں یہ کالم تحریر میں نہ لاتا مگر نرگسی کوفتوں کی محبت نے مجبور کر دیا کہ ان پر قلم اٹھاؤں۔ ویسے مجبور کرنے کی اور بھی غذائیں ہیں مثلاً چاول ہیں تو ان پر بھی کالم کاری ارادہ ہے۔کسی کو یہ سمجھانا مناسب نہیں ہوگا کہ نرگسی کوفتوں میں ثابت انڈا ڈال کر پکالینے کے بعد چھری سے کوفتے کو آدھا کردیتے ہیں۔ وہ آدھا کوفتہ جس میں سے آدھا انڈا اپنی جھلک دکھلا رہا ہوتا ہے اس کی شکل نرگس کے پھول کی طرح ہوتی ہے ا س لئے اس کو نرگسی کوفتہ کہتے ہیں۔پہلا نرگسی کوفتہ کس نے بنایا دنیا کے کس شہر میں بنا اس بارے میں تاریخ خاموش ہے۔اندازہ ہے اس کی تاریخ زیادہ سے زیادہ تین سو سال پرانی ہوگی۔وہ بھی لکھنؤ کے نوابوں کے باورچیوں کی ایجاد ہوگی۔کیونکہ ان نوابوں کے باورچی اتنے ماہر تھے کہ کسی کو گلاب یا چنبیلی وغیرہ کا پھول پلیٹ میں ڈا ل کر دیتے تواگلاحیران ہوتا کہ مجھے تو بھوک لگی ہے اور یہ بھینسوں کا چارہ اور گائے بکریوں کی گھاس پلیٹ میں ڈال کردے رہے ہیں۔مگر جب ان پھولوں وغیرہ کو ہاتھ لگا تے تو وہ فیرنی یا چاول ہوتے۔وہیں سے خوش خوراکی کا سراغ ملتا ہے۔کیونکہ دوسر ی اقوام ان باتوں میں اپنا قیمتی وقت ضائع نہیں کرتے۔ پکنے پکانے کی چیزوں میں آئے دن نئے نئے انداز نکلتے ہیں چائے اور آلو کے چپس تک اتفاق اور تجربات سے بن گئے۔اسی طرح نرگسی کوفتوں میں بھی جدید انداز اختیار کئے جاتے ہیں۔ مگر نرگسی کوفتوں کی آن بان اور شان ویسے کی ویسے ہے۔یہ جتنے سادہ ہوں اتنا پُرذائقہ ہوتے ہیں۔ان کے پکانے میں اگر زیادہ استادی سے کام لیا جائے تو اس کا سارا مزا کرکرا ہوجاتا ہے۔یہ پاکستان ہندوستان اور بنگلہ دیش سری لنکا افغانستان میں کھائے جاتے ہیں۔کیونکہ انگریزوں کا اس سے کوئی کام نہیں۔وہ تو سادہ خوراک کھاتے ہیں۔مچھلی بھی کھائیں توہماری طرح پکوڑوں جیسی نہیں آدھی پکی آدھی کچی کھاتے ہیں۔اصل میں باروچی مردوں کے ہاتھوں میں الگ سی لذت ہوتی ہے۔کیونکہ ان کا تو چوبیس گھنٹے یہی کام ہے۔ان کے ہاتھ کے پکوان جو بھی ہوں لذت میں بے مثال ہوتے ہیں۔پھر خاص اندرون پشاور کے باورچی تو اپنی مہارت میں مشہور ہیں۔ویسے خواتین کے ہاتھوں میں ہنڈیا پکانے کی اپنی سی برکت اور ذائقہ ہے۔ مگر چونکہ وہ ہر وقت شادیو ں جیسے پُر ہنگام پروگراموں کے کھانے نہیں پکا سکتیں اس لئے یہ ان کے بس کا کام نہیں۔مگر بعض مستورات کو بھی اس فن میں یکتائی حاصل ہے۔دیگیوں کا اس لئے کہا ہے کہ گھروں میں مائیں بہنیں بیٹیاں نرگسی کوفتے پکانے کی طرف پورے طور پر متوجہ نہیں ہوتیں۔ ایسے میں یہ کوفتے جیسا کہ حق ہے پکانا مشکل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ ان کا ذہن منتشر ہوتاہے۔کہاں کہاں توجہ دیں۔ اسی لئے کھانے پکانے میں جو لذت مرد باورچیوں کو حاصل ہے گھریلو خواتین کو حاصل نہیں ہوتی۔کیونکہ وہ ہر وقت تو نرگسی کوفتے نہیں پکاتیں۔ پھر اگر ہفتے کے سات دن میں ایک بار بھی پکالیں تو غلطی کا عین امکان سو فی صد موجود ہوتا ہے۔۔اس لئے نرگسی کوفتے پکانا ان کی گرفت سے باہر ہے۔ خودہمارے گھر کی چار دیواری میں اپنی بیگم صاحبہ بھی ہیں جن کو پکوان کی لذتوں کو ہانڈی میں لا موجود کرنے کا دعویٰ ہے۔اس میں ڈرنے کی کیا بات ہے واقعی ان کے ہاتھ میں بہت لذت ہے۔ نرگسی کوفتے بنانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہی تو ہے۔جیسے کسی ہوٹل میں کافی سے زیادہ عرصہ ملازمت کی ہو۔پھر چاول بھی ہم ان کے ہاتھ کے کھائیں تو عرض گذار ہوتے ہیں کہ بھلی مانس دوبارہ بھی پکانا۔ویسے نرگسی کوفتے اگر ٹوٹ جائیں تو اس میں خواتین کی بے توجہی کا قصور بھی نہیں ہوتا۔شرط یہ کہ قیمہ اچھا ہونا چاہئے پھر کوفتوں کے پکانے میں مسالوں کا بھی عمل دخل ہے۔ بغیر انڈوں کے کوفتے تو ہم بھی بنا سکتے ہیں۔گھرمیں اتنے اہتمام کے باوجود نرگسی کوفتہ اچھا نہیں پکتا۔ کیونکہ ان دنوں ہفتہ کے ساتوں دن جو شادیو ں کے ڈھول بج رہے ہیں۔ ایسے میں کیوں نہ کسی شادی میں جا کر کوفتہ سے لطف حاصل کرلیا جائے کیونکہ ہوٹلوں اور شادی ہالوں کے باورچیوں کے قیمہ فروش صاحبان کے ساتھ اپنے لنک ہوتے ہیں۔قیمہ کے دکاندار گیدرنگ ہال کی انتظامیہ کو غلط چیز نہیں دے سکتے کیونکہ روز کا کام ہے۔