پانچ اور چھ نومبر کی شب صوبہ سندھ کے ’ضلع گھوٹکی‘ میں کچے کے علاقے میں ایک سو سے زائد ڈاکوؤں نے پولیس کیمپ پر حملہ کیا جس میں ایک ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس اور دو سٹیشن ہاؤس آفیسرز (ایس ایچ اُوز) سمیت کم از کم پانچ پولیس اہلکار جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ پولیس پر ہوئے اِس حملے کی آمدہ تفصیلات اور اطلاعات کے مطابق ”ضلع گھوٹکی کے علاقے ’اوباڑو‘ میں راونٹی کے قریب پولیس پارٹی نے ڈیرہ ڈال رکھا تھا‘ جن پر ڈاکوؤں نے حملہ کر کے تین اعلیٰ پولیس اہلکاروں سمیت پولیس اہلکاروں کو ہلاک اور متعدد کو زخمی کر دیا۔ پولیس کا یہ ڈیرہ تیس اکتوبر کو اغوا ہونے والے ایک نابالغ سمیت تین مغویوں کی بازیابی کے لئے جاری کاروائیوں کا حصہ تھا اور اغوا کاروں تک پہنچنے کے لئے کوشاں پولیس ابھی کامیاب بھی نہیں ہوئی تھی کہ حملہ آوروں نے اُنہیں آ لیا۔ اِس حملے کی تفصیلات بہت ہی خوفناک ہیں کیونکہ ڈاکوؤں کی تعداد بہت زیادہ بتائی جا رہی ہے اور مبینہ طور پر ان کے پاس پولیس کے مقابلے زیادہ جدید ہتھیار تھے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ڈاکوؤں نے پولیس پر کم از کم پچیس راکٹ فائر کئے۔ یہ حملہ اتنا اچانک تھا اور مختلف اطراف سے بیک وقت کیا گیا جس کی وجہ سے پولیس اہلکار اپنا دفاع نہ کر سکے۔ضلع گھوٹکی میں راونٹی کے قریب پیش آئے اِس سانحے میں پولیس کے پاس 3 بکتر بند گاڑیاں (آرمرڈ پرسنل کیریئرز APCs) بھی موجود تھیں لیکن اُنہیں سنبھلنے کی مہلت ہی نہیں دی گئی اور بکتربند گاڑیاں بھی پولیس اہلکاروں کی جان کی حفاظت کرنے میں ناکام رہیں۔ پولیس کے پاس بھی راکٹ لانچر موجود تھے جنہیں استعمال کرتے ہوئے حملہ پسپا کیا جا سکتا تھا۔ اِسی طرح پولیس کے پاس مواصلاتی رابطے کے آلات بھی تھے جن کا استعمال کرتے ہوئے مدد طلب کی جا سکتی تھی لیکن شاید تکنیکی خرابیوں یا تربیت کی کمی کے باعث موجود وسائل کا بروقت اور خاطرخواہ استعمال نہیں کیا جا سکا۔ یہ تمام عوامل کچھ سنگین سوالات اٹھاتے ہیں کہ اس طرح کی پولیس کاروائیاں کس طرح سے ہوتی ہیں اور پولیس کے پاس تربیت اور خود کو بچانے کیلئے کس طرح کی حکمت عملیاں بطور اصول استعمال کی جاتی ہیں۔ پولیس کاروائی کی قیادت کرنے اور علاقے سے ڈاکوؤں کی لعنت ختم کرنے کیلئے جوابی کاروائی کتنی بڑی اور شدید ہونی چاہئے اِسے لکھنے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر مذکورہ علاقے میں ڈاکوؤں کی تعداد سینکڑوں میں بتائی جاتی ہے تو انتہائی کم تعداد میں پولیس اہلکاروں کو وہاں کیوں بھیجا گیا؟ ایک اور سوال ان مجرموں کے جدید ہتھیاروں سے متعلق ہے کہ آخر اُنہوں نے اِس قدر بڑی تعداد میں خود کار ہتھیار کہاں سے حاصل کر لئے ہیں۔ ملک بھر میں ایسے ہتھیاروں کی فراہمی‘ موجودگی اور اُن کی باآسانی نقل و حمل ایک سنگین مسئلہ ہے‘ جس سے نمٹنے کے لئے صرف ضلع گھوٹکی ہی نہیں بلکہ دیگر اضلاع میں سخت گیر اقدامات کی ضرورت ہے۔ ضلع گھوٹکی میں پولیس فورس پر نہیں بلکہ پوری ریاستی مشینری پر حملہ ہوا ہے اور اِس سے کسی ایک صوبے کے ایک ضلع کو نہیں بلکہ یہ پورے پاکستان کی پولیس کے لئے باعث ِتشویش ہونا چاہئے۔ کیا پولیس آج بھی مجرموں کی تلاش میں اُن کے پیروں کے نشانات کا پیچھا کرتی ہے اور یہی کچھ ضلع گھوٹکی میں بھی ہوا جبکہ وہاں سینکڑوں کی تعداد میں مسلح ڈاکوؤں کی موجودگی کسی سے ڈھکی چھپی بھی نہیں تھی۔ پولیس کو کسی زمینی کاروائی (مہم جوئی) کی بجائے علاقے کی فضائی نگرانی اور حملہ آوروں کے خلاف اُس مختلف انداز سے بھرپور طاقت کا استعمال کرنا چاہئے جو اُن کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو اور جو ملک کے دیگر حصوں میں بھی منظم جرائم پیشہ عناصر کیلئے عبرت کا نشان ہو دہشت گردی کیخلاف مبینہ عالمی جنگ میں پاکستان کے عوام کی طرح پولیس فورس نے بھی گزشتہ دہائیوں میں ہزاروں کی تعداد میں اپنے اہلکاروں کی قربانی دی ہے، اہم بات یہ ہے کہ ہمارے پولیس اہلکاروں کو محفوظ رکھنے میں موجودہ پولیسنگ کا نظام کس قدر مددگار ثابت ہو رہا ہے؟