برطانوی شہریت رکھنے والے معروف انگلش گلوکار اُنتیس سالہ ’زین ملک (Zayn Malik) نے برطانوی وزیر اعظم رشی سنک کو بوساطت سوشل میڈیا (انسٹاگرام) مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”برطانیہ میں رہنے والے اور دیگر ممالک سے ہجرت کر کے آباد ہونے والوں کو مہنگائی کا سامنا ہے اور یہ بحران اِس قدر شدت اختیار کر گیا ہے کہ بچوں کی تعلیم اور خوراک متاثر ہو رہی ہے۔“ اپنے خط میں انہوں نے وزیراعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ تعلیمی اداروں میں بچوں کے لئے ”مفت“ کھانے کو یقینی بنایا جائے۔ زین پاکستانی نژاد والد یاسر ملک کے بیٹے ہیں جو سال 2016ء تک ”ون ڈائریکشن“ نامی میوزک بینڈ کا حصہ رہے۔ زین نے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر اپنے دستخط شدہ خط کی ایک تصویر شیئر کی ہے جس میں انہوں نے برطانوی شہریوں کی مشکلات کو بیان کیا جو زندگی بسر کرنے کے بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ سے پریشان ہیں۔ برطانوی شہری کا اپنے وزیراعظم کے نام اِس مکتوب سے ظاہر ہوا ہے کہ مہنگائی صرف پاکستانیوں ہی کا نہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک کے رہنے والوں کے لئے مسئلہ ہے تاہم فرق یہ ہے کہ مہنگائی کے منفی اثرات کم کرنے کے لئے عوام اور حکمران میں ایک قسم کا رابطہ قائم ہے اور برطانوی عوام اپنے وزیراعظم کو اِس یقین کے ساتھ مخاطب کرتے ہیں کہ وہ اُن کے مسائل
کا حل پیش کرے گا۔ توجہ طلب ہے کہ برطانیہ میں چالیس لاکھ ایسے گھرانے ہیں جن کے افراد بشمول بچے مہنگائی کی وجہ سے پریشان ہیں اور جنہیں ستمبر دوہزاربائیس سے غذائی غربت کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ برطانیہ میں زیرتعلیم آٹھ لاکھ بچے ایسے ہیں جنہیں مہنگائی کے سبب خاطرخواہ کھانا پینا نہیں مل رہا اور غربت کے باوجود ایسے آٹھ لاکھ بچے سکولوں میں مفت کھانے سے محروم ہیں اور یہی وہ نکتہ ہے جو ایک گلوکار نے اُٹھایا ہے۔ پاپ سٹار زین ملک کا کہنا ہے کہ غربت زدہ خاندانوں سے تعلق رکھنے والے برطانوی بچوں کی جسمانی نشوونما متاثر ہو رہی ہے اور وہ سکول کینٹین سے کھانا چوری کرنے جیسے واقعات بھی معمول بنتے جا رہے ہیں کیونکہ بچوں کے پاس غذائی ضروریات خریدنے کی استطاعت نہیں ہوتی۔ برطانوی معاشرے میں اِس بات کو انتہائی تشویشناک اور ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے کہ محض غربت کی وجہ سے بچوں کی جسمانی اور ذہنی صحت متاثر ہو رہی ہے
اور اِس بات کا حوالہ دیتے ہوئے سماجی کارکن حکومت کو مستقبل کے لئے خبردار کر رہے ہیں جبکہ غربت زدہ نئی نسل بالغ ہو گی اور اُن کی ذات میں پائے جانے والا احساس محرومی مختلف صورتوں بشمول جرائم میں اضافے کی صورت ظاہر ہونے کا اندیشہ ہے۔ برطانیہ میں مہنگائی اور غربت کی بڑھتی ہوئی شرح پر کئی تحقیقی مقالے اور ادارتی مضامین معروف اخبارات و جرائد میں شائع ہو رہے ہیں جبکہ اخبارات و رسائل میں ’ایڈیٹر کے نام خطوط‘ میں بھی یہ مطالبہ عوام کی جانب سے دہرایا جا رہا ہے کہ بچوں کی خوراک اور اُن کی نشوونما یقینی بنانے پر توجہ دی جائے تاکہ کسی بھی بچے کو دوبارہ بھوک و بدنظمی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ برطانوی عوام کے لئے یہ صورتحال ناقابل قبول ہے کہ وہاں غربت کے باعث بچے ایک مشکل زندگی بسر کر رہے ہیں۔ زین ملک نے لکھا ہے کہ مجھے امید ہے کہ حکومت وہی کرے گی جو صحیح ہے اور جو باعث تبدیلی اور ضروری ہوگا۔ والدین پہلے ہی اپنی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں لیکن اُنہیں حکومتی تعاون کی اشد ضرورت ہے۔ والدین کے لئے شاید ہی اِس سے زیادہ مشکل کوئی اور بات ہو جب وہ اپنے بچوں کے لئے کھانے پینے کی ضروریات بھی خریدنے کے قابل نہ ہوں! ایسے کئی خاندان ہیں جنہوں نے سخت سردی اور
گرمی کے باوجود اپنے گھروں کو ٹھنڈا اور گرم رکھنے والے حرارتی نظام اور دیگر ایسی سہولیات جو برطانیہ میں عام ہیں ترک کر دی ہیں یا وہ قرض لے کر معمولات زندگی کے بہتر ہونے کے منتظر ہیں۔ اگر حکومت کی جانب سے غریب بچوں کے لئے سکولوں میں دوپہر کا کھانا فراہم کر دیا جاتا ہے تو یہ اقدام پریشان والدین کے راحت کا باعث ہوگا۔ جو مہنگائی کے سبب پیدا ہونے والے مشکل حالات سے نمٹنے کی جدوجہد کر رہے ہیں ذہن نشین رہے کہ برطانیہ میں خوراک اور توانائی کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ عام آدمی کی قوت خرید سے زیادہ ہے۔ ستمبر دوہزاربائیس میں برطانیہ کی افراط زر (مہنگائی کی شرح) 10 فیصد سے زیادہ ہے جس کے لئے عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔ توانائی کی قیمت ایک اہم وجہ ہے کہ چیزیں زیادہ مہنگی ہو رہی ہیں۔ کورونا وبا کے بعد برطانیہ میں ابھی زندگی معمول پر بھی نہیں آئی تھی کہ روس یوکرین جنگ کا آغاز ہو گیا جس کی وجہ سے ایندھن کی قیمتوں پر پہلے سے موجود دباؤ میں اضافہ دیکھا گیا۔ کھانے اور مشروبات کی قیمتوں میں چودہ فیصد سے زائد اضافہ ایک ایسا محرک ہے جس نے برطانیہ میں رہنے والے ہر خاص و عام کو متاثر کیا ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ برطانیہ میں مہنگائی ’اپریل 1980ء کے بعد سے‘ تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔