خالی بوتلیں ڈبے 

سبزیوں کی قیمتیں تو معمول پر آنا شروع ہوگئی ہیں۔ کیونکہ سیلاب کی وجہ سے جو مال دوسرے شہروں تک نہیں جا سکتا تھا اور ساتھ ہی سیلاب میں فصلوں کی تباہی کی جو اطلاعات تھیں ان میں ٹھہراؤ کی خبریں بھی ہیں۔ہر شئے کی قیمتوں میں کمی درکار ہے مگرگراں تر ہوتی جا رہی ہیں۔ مگر دیکھیں شاید مگر دل کو تسلی دینے والی بات ہے کہ مہنگائی کا گراف نیچے آئے۔جن گھروں میں وافر راشن آتا تھا وہ بھی خالی ہاتھ ہونے لگے ہیں۔کونوں کھدروں سے شوکیں کی چینکوں گلاسوں میں کہیں کسی وقت رکھے ہوئے نوٹ تلاش کرتے ہیں۔بھلے دس دس والے ہی مل جائیں۔جن سے صبح ناشتے کے لئے روٹی منگوائی جا سکے۔ اگر روٹی لانے کی سکت نہیں تو رات کی روٹی کو پانی کے چھینٹے دے کر آگ پرگرم کر کے قہوے کے ساتھ کھائیں۔ یوں ان کا ناشتہ ہو جائے۔ دیکھا ہے کہ لوگوں نے دودھ کا استعمال بھی ترک کر دیا ہے۔ وہ قہوہ بنا کر ناشتہ کی ضرورت کو پورا کرتے ہیں۔پھرکہیں دن میں ایک مرتبہ اگر چائے بنا سکیں تو بنا لیں۔ کیا کریں باہر جنرل سٹور پر ہر چیز گراں ہے۔پہلے تو پانچ کلو چینی ایک ہی بار آ جاتی تھی۔اب ہر دوسرے تیسرے دن پاؤ چینی منگوا لو۔ جیبیں ٹٹول کر کہیں بیس کا نوٹ نکل آئے تو اس سے چائے کی پتی کا ساشے لے لیں۔ دودھ تو میں نے رسمی طور پر لکھ دیا ہے۔یہاں تو دودھ جیسا مصنوعی دودھ یعنی کالی چائے کو سفید کرنے والا  محلو ل بھی دودھ کے ڈبے کے نام پر فروخت ہوتا ہے۔جس سے چائے بنتی ہے اور جتنی زیادہ بن سکے اتنا اچھا تصور کیا جاتا ہے۔ کیونکہ گھر میں اگر افراد زیادہ ہو ں تو ایسے میں ان کو پوراکرنا مشکل ہے۔پہلے اگر گھر میں کچھ نہ تھا تو گذشتہ روز کی روٹی کو صبح دم گھی میں تل کر کھا لیتے۔یہ انتہائی غریبانہ ناشتہ ہوا کرتا تھا۔مگر وقت کے گزرنے کے ساتھ اب تو گھی میں تل کر روٹی کھانا بہت بڑی عیش بن گیا ہے۔پھر اگر کسی گھر میں صبح کے وقت پراٹھے بنتے ہیں تو ان کولاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہئے کہ یہ نعمت بھی اب بہت کم لوگوں کو میسر ہے۔سیلاب زدگان جو کیمپوں اور اپنے گھروں میں ہیں ان کو باسی روٹی بھی مہیا نہیں۔گھی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔ اب تو آدھ پاؤ کے گھی کے ساشے بنے ہیں لوگ تو وہ خرید کر گزارا کر رہے ہیں۔پھر نہ تو عام مزدور کی روزانہ اُجرت بڑھ رہی ہے اوراس کے گھر کی دیواروں پر غربت بال کھولے سو رہی ہے۔وہاں تو قریب و دور خزاں پتوں میں چھپ کے رو رہی ہے او راسی طرح جینے کی صورت ہو ر ہی ہے۔چکن کھانے کا تو سوال کہا ں جب سبزی خریدنا مشکل ہو چکن کا نرخ روز بڑھ جاتا ہے۔بازار میں دکاندار نے سلیٹ پر چاک سے نرخ لکھ کر لٹکا رکھاہوتاہے۔چکن لو نہ لو مگر سیاہ تخی ہمارے اپنے ماتھے کے کلنک کو ظاہر کرتی ہے۔ کاروباری حضرا ت جو بڑے ڈیلر کہلاتے ہیں دو کے چا راور چار کے چالیس کرنے کے درپے ہیں۔ وہ اگر مہنگا دیں تو چھوٹا دکاندار مہنگا خرید کر کیسے اور کیوں سستا فروخت کرے۔پہلے جو چیزیں بیکار تصور کر کے کوڑے میں پھینک دی جاتی تھیں وہ اب کباڑ میں فروخت کرتے ہیں۔ پرانی تاریں بیکار بوتلیں روٹی کے سوکھے ٹکرے جو گھر والے یونہی کوڑے میں پھینک دیتے اب وہ گھرکے پاس کباڑ میں فروخت کر دیتے ہیں۔تاکہ دس روپے ہی ملیں مل توجائیں کوئی کام چلے نہ چلے بچوں کو تو دے دیں گے۔خالی بوتلیں اور ڈبے اب ناکارہ تصور نہ کئے جائیں ان سے بندہ کام لے سکتا ہے۔اگر جمع ہوجائیں تو ایک وقت کا سادہ سا غریبانہ ناشتہ وہ بھی شاید ممکن ہو   اب تو گاڑی والے بھی اسے استعمال کرنے کی سکت نہیں رکھتے تاہم مجبوراً پٹرول ڈلوانا پڑتا ہے کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ یہ لوگ رکشہ سے کود کر کیوں اُترے ہیں۔کیا انھوں نے گاڑی بیچ دی ہے۔سو اپنی آن برابر رکھنے کو گاڑی کے استعمال کو ترک نہیں کر سکتے اور استعمال کریں تو پٹرول کہاں سے آئے۔