سیاسی عدم برداشت 

ملک بھرمیں جاری سیاسی محاذ آرائی کی وجہ سے معاشرے میں پنپنے والی عدم برداشت  اور ایک دوسرے کو دشمن سمجھنے کے رجحان کا نتیجہ اگر ایک طرف پی ٹی آئی کے سربراہ پر قاتلانہ حملے کی صورت میں سامنے آیاہے تو دوسری طرف سیاسی عدم برداشت کی ایک جھلک پشاور سے تیمر گرہ جانے والی مسافر کوچ میں سیاسی بحث و تکرار میں علاقہ قلعہ گئی گاؤں سیار درہ کے پی ٹی آئی کے کارکن کی ہلاکت اور اسکے بھائی کے زخمی ہونے کی صورت میں دیکھی جاسکتی ہے۔عمران خان پر قاتلانہ حملہ ملک میں جاری اسی سیاسی ہیجان کا نتیجہ ہے جس نے کراچی تا خیبر پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔یہ ہماری سیاست میں دھر آنے والی عدم برداشت اور سیاسی مخالفین کو
 نیچا دکھانے کی منفی سوچ کا نتیجہ ہے۔سوشل میڈیاکو سیاسی مخالفین جس طرح ایک بے لگام میڈیم کے طور پر ایک دوسرے کے خلاف استعمال کر رہے ہیں اسکی جانب سنجیدہ حلقے مسلسل اشارے کرتے رہے ہیں۔اس بات میں کوئی دو آراء نہیں ہیں کہ اس وقت پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں پیپلز پارٹی واحد سیاسی جماعت اور بھٹو خاندان واحد سیاسی خاندان ہے جسے ماضی میں سب سے زیادہ تختہ مشق بنایا جاتا رہا ہے حتیٰ کہ اسکے قائد ین ذوالفقار علی بھٹواورمحترمہ بے نظیر بھٹو کو اس سلسلے میں جان کی قیمتیں بھی چکانی پڑی ہیں لیکن پیپلز پارٹی نے کبھی بھی صبر اور برداشت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا خاص کر محترمہ بے نظیر بھٹو کی ہلاکت پر آصف زرداری نے جس طرح پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا تھا اسمیں پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور انکے قائدین کے لئے سیاسی برداشت کا بہت بڑا سبق موجود ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ہمارا اصل مسئلہ سیاسی ڈائیلاگ کا نہ ہونا اور ایک
 دوسرے کوبرداشت نہ کرنے پر مبنی رویوں کاپروان چڑھنا ہے۔اس تمام صورتحال کے تناظر میں بہتری اور امید کی اگر کوئی کرن ہوسکتی ہے تووہ سیاسی افہام وتفہیم اور ڈئیلاگ کا راستہ ہی ہو سکتا ہے جس کے نتیجے میں ہم من حیث القوم نہ صرف موجودہ سیاسی تناؤ اور عدم برداشت کی کیفیت سے نکل سکتے ہیں بلکہ اس مثبت طرز عمل سے ملک کو درپیش سنگین خطرات اور چیلنجز سے بھی عہدہ برآء ہو اجاسکتا ہے۔اس وقت تمام سیاسی قائدین پر یکساں ذمہ داری عائد ہوتی ہے چاہے ان کا تعلق حزب اختلاف سے ہے یا حکومت سے کہ وہ ملک کو درپیش سنگین چیلنجز اور خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے مل کر کام کریں اور یہی وقت کا تقاضہ ہے۔