وقت گزر نے کے ساتھ خبررسا نی اور پیغام رسا نی میں نئے نئے انقلا بات آرہے ہیں آج سے 50سال پہلے دنیا میں سو شل میڈیا کے نا م سے کوئی واقف نہیں تھا 1975ء میں میری عمر کے لوگوں نے اخباری دنیا میں قدم رکھا تو پیغام رسانی کا یہ حال تھا کہ صدر یا وزیر اعظم یا غیر ملکی مہمان عزیز اگر سوات، دیر اور چترال کا دورہ کر تا تو اس کی تصویر دو دن بعد اخبار کے دفتر میں وصول ہو تی تھی اقتدار علی مظہر اور قاضی سرور اگر ڈائریکٹر اطلا عات کی حیثیت سے وی آئی پی کے ہیلی کا پٹر میں سفر کر تے تو کیمرے کی ریل اپنی جیب میں ڈال کر دفتر پہنچا دیتے اور ٹرسٹ کے اخبار ات کوجاری کرتے یہ مو قع بہت کم آتا تھا خبریں ٹیلی پرنٹر کے ذریعے اخبارات کو ملتی تھیں اور یہ سہو لت صرف بڑے شہروں میں اے پی پی کے ذریعے دستیاب ہو تی تھی پا کستان ٹیلی وژن سنٹر کا جنرل منیجر سب کی تو جہ کا مر کز ہوا کرتا تھا ریڈیو کا نیوز ایڈیٹر اہم خبریں لا یا کرتا تھا ٹیلی وژن کی رسائی ہر جگہ نہیں تھی اس لئے ٹیلی وژن کے رپورٹر کی اہمیت ریڈیو کے رپورٹر کے بر ابر نہیں تھی اخبار کے نیوز ڈیسک پر ایک ٹرانسسٹر ریڈیو ہوا کر تا تھا جو خبروں کا اہم ذریعہ تھا اکیسویں صدی میں سوشل میڈیا نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور اقتدار کے ایوا نوں سے لیکر گھر کی چار دیواری تک ہر ایک کے لئے مسئلہ اور چیلنج پیدا کر دیا ہے ایوان اقتدار کی غلا م گردشوں میں کسی بات کو چھپانا ممکن نہیں رہا، راز داری کا پورا نظام تہہ وبالا ہو چکا ہے گھر کی چار دیواری کے اندر بچوں کو کارٹون، گیم اور دیگر سر گر میوں سے دور رکھنا مشکل بلکہ نا ممکن ہو گیا ہے یہ صرف ترقی پذیر ممالک کا مسئلہ نہیں بلکہ ترقی یا فتہ مما لک کیلئے بھی درد سر بن چکا ہے کوریا میں بیٹھا ہوا ایک بچہ ٹوئٹر پر خبر چلا تا ہے جس کی وجہ سے امریکہ اور یو رپ میں فساد بر پا ہوتا ہے، میکسیکو میں بیٹھی ہوئی ایک لڑکی خبر بھیجتی ہے جس کی وجہ سے 10منٹ کے اندر دنیا کے نصف حصے میں کم ازکم 2ارب کی آبادی ذہنی کوفت‘پریشا نی اور دباؤ کا شکار ہو جاتی ہے یا سنگا پور سے ایک غیر معروف شخص ایسی خبر دے دیتا ہے جس کی وجہ سے کم ازکم چار مما لک میں فسادات پھوٹ پڑتے ہیں امریکہ اور یورپ میں آزادی اظہار رائے کے قانون کی پاسداری کر تے ہوئے خبروں کی چانچ پڑ تال پر زور دیا جاتا ہے لیکن اب تک اس کا کوئی قابل عمل طریقہ نہیں بتا گیا۔بعض ممالک میں ممنو عہ تصاویر سوشل میڈیا پر نہیں آتیں تا ہم پا بندی لگانے کی وجہ سے ان مما لک کو تنقید کا نشا نہ بنا یا جاتا ہے پا کستا ن میں بھی ایک آدھہ بار سوشل میڈیا کو قانون کے دائر ے میں لا نے کی کو شش کی گئی لیکن بہت جلد پا بندی ختم کی گئی اس وقت پاکستان جیسے مما لک کے سامنے یہ مسئلہ ہے کہ سوشل میڈیا کے ساتھ کیا سلوک کیا جا ئے‘ایک مشہور کا روباری شخصیت کا سات سالہ بیٹا آنکھوں کی بیما ری کا شکار ہوا‘ڈاکٹر وں نے سینکڑوں دوائیں تجویز کیں مگر افاقہ نہیں ہوا‘ آخرکار ایک ڈاکٹر نے کہا کہ بچہ ایک رات میرے گھر میں چھوڑ کر جا ؤ، رات کو ڈاکٹر نے اپنے بچوں سے کہا کہ مہمان کی دلچسپی کے گیم اور کا رٹون دیکھو پھر مجھے بتاؤ کہ ان میں کیا مواد ہے؟ صبح معلوم ہوا کہ یہ بچہ جو کار ٹون دیکھتا ہے اُس میں ایک بچہ ہے جو بار بار آنکھیں جھپکاتا ہے‘اس کو دیکھ کر بچے کے اندریہ بیماری پیدا ہو ئی ہے ڈاکٹر نے مر ض کی تشخیص کے بعد دوا تجویز کی کہ بچے کو 6ما ہ تک کار ٹون سے پر ہیز کروایا جا ئے چنا نچہ کارٹون سے پر ہیز کے بعد بچہ تندرست ہوا حکومتوں کے لئے لا قا نو نیت، دہشت گردی اور سما جی برائیوں پر قابو پا نے کے لئے سو شل میڈیا پر نظر رکھنا ضروری قرار دیا جا رہا ہے۔
اشتہار
مقبول خبریں
روم کی گلیوں میں
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ترمیم کا تما شہ
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ثقافت اور ثقافت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
فلسطینی بچوں کے لئے
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
چل اڑ جا رے پنچھی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
10بجے کا مطلب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ری پبلکن پارٹی کی جیت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
روم ایک دن میں نہیں بنا
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
سیاسی تاریخ کا ایک باب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی