جو نہیں ملا اسے بھول جا

آدمی کے پاس سب کچھ ہو۔دنیا کی ہر آسائش او رآسانی میسر ہو بازار سے جوخریدنا چاہے اس کی قوتِ خرید اس کے ہاتھ میں ہو۔ مگر اس کو دلی سکون حاصل نہ ہو تو پھر کیا۔اگر ایک آدمی کے پاس کچھ نہ ہو مشکل سے زندگی گزر رہی ہو اور اس کو سکون حاصل ہو تو پھر کیا بات ہے۔میں کبھی دعا مانگ رہا ہوتا ہوں تو دعا کے دوران ڈسٹرب ہو جاتا ہوں۔ کیونکہ خدا سے جو مانگ رہا ہوتا ہوں لگتا ہے کہ مزید لالچ کر رہا ہوں۔ کیونکہ خدا نے مجھے جو دے رکھاہے وہ بھی تو ہر ایک کے پاس نہیں ہے۔اگر صبر حاصل کرنا ہو تو اپنے سے نچلے طبقے کو دیکھنا چاہئے بندہ کو خود بخود صبر آ جاتا ہے۔سوچتا ہو ں کہ او رمانگو یا جو کچھ ملا ہوا ہے اس پر قناعت کروں۔کیونکہ جو مجھے ملا ہے وہ بھی تو میری اوقات سے زیادہ ہے۔شکر کروں یا صبر کرو ں۔کیونکہ دونوں حالتیں عبادت کی ہیں۔انسان کے لئے یہ دو صورتیں کہ جوملاہے اس پر صبر کرے اور شکر کرے۔مگر ہمارے ہاں یہ رواج نہیں ہے۔انسان کے لالچ کا منہ تو کبھی نہیں بھرتا۔ ”ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پردم نکلے۔ بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے“۔قناعت بہت بڑی دولت ہے۔جتنی بھی نیک نام ہستیاں گزری ہیں ان میں ایک بات مشترک ہے۔وہ بات صبر شکر ہے۔ ورنہ دولت تو بہت سے لوگوں کے پاس تھی او رہے پھر آنے والے دنوں میں بھی رہے گی۔ مگر تاریخ کے پاس ان مالدار شخصیات کا کوئی ڈیٹا نہیں ہے۔ہا ں نیک انسانوں کا ڈیٹا تاریخ میں موجودہے۔ان کے ناموں اور ان کی فیملی کے ناموں سے بھی لوگ واقف ہیں۔مگر جو مالدار دنیا سے رخصت ہوئے اور کسی کے کام نہ آئے ان کو تو تاریخ فراموش کر دیتی ہے۔کیونکہ ہندکو کے شاعر جوش پشاوری نے اپنی حرفی میں کہا ہے کہ دولت تو پری کی مثال ہے۔مگر یہ وہ پری ہے جو کسی دیو کی قید میں نہیں رہتی۔ یہ تو بے وفا ہوتی ہے۔کبھی ایک کے پاس چلی جاتی ہے او رکبھی یہی دولت کسی غریب کی کٹیا میں دیا بن کر روشنی دیتی ہے۔ہمارے پاس جو ہوتا ہے اس پرہم ناشکری کرتے ہیں۔ہم اس سے مطمئن نہیں ہوتے۔ یہ تو انسان کے رگ و پے میں داخل ہے کہ وہ جو پاس ہے اس کو بھول چکا ہوتا ہے۔پھر وہ مزید کی تمنا کرتا ہے۔آدمی کی فطرت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے آپ کو دنیا کا سب سے زیادہ مصیبت زندہ انسان سمجھتا ہے۔بس جو وقت بیت گیا وہی اچھا وقت ہے۔ شکر صبر سے کام لو تو آسمان سے اور زیادہ رزق برستا ہے۔درحقیقت دل کا سکون اشیاء کے حاصل کرنے میں نہیں ہے۔یہ تو ایک ایسی نایاب چیز ہے جو کسی غریب کے پاس ہو سکتی ہے او رامیر کے پاس نہیں۔ پھر امیر کے پاس ہوسکتی ہے اور غریب کے پاس نہیں۔انسان اپنی موجودہ حالت سے اکثر طورپر مطمئن نہیں ہوتا۔ جو لوگ مطمئن ہو تے ہیں وہ تو قناعت کی دولت سے مالامال ہوتے ہیں جو ہمارے پاس ہے ہم اس کو بھلا دیتے ہیں او رپھرمزید کی تمنا کرتے ہیں۔جو ہمیں حاصل ہوتا ہے وہ صرف دولت ہی نہیں رشتے ناتے دوست یار رشتہ دار گھر والے سب کچھ اسی میں شامل ہیں۔ جوملا ہوتا ہے اس کوکم جانتے ہیں۔انسان کو جو حاصل ہوتا ہے ا س میں بہت کچھ شامل ہے۔مگر نا شکری آدمی کی خاص بات ہے۔تھوڑے پر مطمئن نہیں ہوتا۔مگر جب وہی تھوڑا چھن جاتا ہے تو پھرارمان کرتا ہے کہ وہ جو میسر تھا کتنا اچھا تھا۔کاش وہی ہوتا میں اسی کے سہارے زندگی گزار لیتا ہے۔بعض ہمارے پیارے رشتوں ناتوں کو دولت نہیں سمجھتے۔ وہ روپیہ پیسہ کو حقیقت جانتے ہیں۔مگر وہ بہت بڑی خوش فہمی میں گرفتار ہیں۔دوستی یاری بھی تو خزانہ ہوتی ہے۔جس کی ہم پروا نہیں کرتے۔چھوٹی موٹی باتو ں پر ہم رشتے توڑدیتے ہیں اوردوستیاں ترک کر دیتے ہیں۔