کرکٹ کے ’ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ‘ کے جاری مقابلے اپنے اختتام کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ پاکستان نے مقابلوں کے پہلے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کو سات وکٹوں سے شکست دے کر فائنل کے لئے کوالیفائی کرلیا جو تیرہ نومبر کے روز پاکستانی وقت کے مطابق دوپہر ایک بجے سے کھیلا جائے گا۔ شائقین کرکٹ اِس بات کو ذہن میں رکھیں کہ ’آئی سی سی مینز ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے فائنل میں جگہ بنانے والی دونوں ٹیموں کو اگر بارش کی وجہ سے متاثر ہونا پڑا تو ایسی صورت میں دونوں کو ”مشترکہ چیمپئن“ قرار دیا جائے گا۔ پاکستان پہلے ہی کرکٹ کے اِس بڑے ایونٹ کے فائنل میں پہنچ چکا ہے۔ محکمہ موسمیات نے فائنل مقابلے کے روز 95 فیصد بارش کے امکانات کی پیش گوئی کر رکھی ہے جس کی وجہ سے ’میلبورن کرکٹ گراؤنڈ‘ میں کھیلے جانے والا انتہائی اہم میچ خطرے میں ہے۔ اِس بات کا فیصلہ بھی کر لیا گیا ہے کہ اگر اتوار (تیرہ نومبر) کو بارش کے باعث کھیل ممکن نہ ہوا تو پھر فائنل مقابلہ اگلے روز (چودہ نومبر) پاکستانی وقت کے مطابق رات 9 بجے کھیلا جائے گا تاہم میلورن میں پیر کے روز بھی بارش ہونے کا امکان ہے! یہاں ایک خاص نکتہ لائق توجہ ہے کہ کرکٹ کی عالمی نشریات کرنے والے اداروں کی طرف سے ’انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی)‘ پر دباؤ ہے کہ وہ میچ کے آغاز کا وقت تبدیل نہ کریں کیونکہ نشریاتی اداروں نے پہلے ہی شیڈول کے مطابق خلائی سیاروں کی بکنگ کر رکھی ہے جن کے ذریعے وہ پوری دنیا میں یہ مقابلے نشر کریں گے۔ اِس سلسلے میں ’آئی سی سی‘ نے وضاحت بھی جاری کی ہے کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ فائنل مقابلے کو مقررہ دن پر کرانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ کرکٹ کا کھیل کسی بھی طرح صرف کھیل نہیں رہا بلکہ اِس کے نشریاتی اور تشہیری حقوق کی خریداری اربوں ڈالر میں کی جاتی ہے اور کرکٹ ایک منظم کاروبار بھی ہے‘ جس کے کئی کاروباری پہلو اِس کھیل کو متاثر کر رہے ہیں۔ (اِس موضوع کے حوالے سے کسی دوسرے مرحلہئ فکر پر
تفصیلات بیان کرنے کی کوشش کی جائے گی۔)
پاکستان کرکٹ ٹیم نے جاری عالمی مقابلوں میں جس کارکردگی کا مظاہرہ کیا‘ اُس میں مستقل مزاجی کا فقدان پایا جاتا ہے تاہم خوش قسمتی رہی کہ ’ٹیم گرین‘ کو فائنل تک پہنچنے کا نظارہ کرنے والے لاکھوں شائقین کامیابی پر دم بخود رہے۔ قومی کرکٹ ٹیم نے نیوزی لینڈ کے خلاف سات وکٹوں کی زبردست فتح میں ’کلینکل ڈسپلے‘ پیش کرنے کے بعد جوش اور اضطراب سے کرکٹ کھیلی جو کامیابی کی ضامن سمجھی جاتی ہے۔ سڈنی کرکٹ گراؤنڈ کا پرجوش ماحول جس میں ’دل دل پاکستان‘ جان جان پاکستان‘ کی گونج میں شائقین کرکٹ کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ رضوان اور کپتان بابر اعظم نے ’قابل رشک‘ کامیابی کے ساتھ فائنل تک رسائی حاصل کی جو انتہائی دلچسپ بین الاقوامی مقابلہ ہوگا اور کرکٹ شائقین کو اِس کا بے صبری سے انتظار ہے۔ سیمی فائنل کے ہیرو فاسٹ باؤلر شاہین شاہ آفریدی اور اوپنرز بابر اعظم و رضوان تھے جنہوں نے ایک ناممکن کو ممکن کر دکھایا اور ثابت کیا کہ اگر پاکستان کی کرکٹ ٹیم مقابلہ جیتنا چاہے تو پھر اِسے کوئی نہیں روک سکتا۔ شاہین اور باقی پاکستانی اٹیک نے نسبتاً فلیٹ وکٹ پر نیوزی لینڈ کے طاقتور حملے کو روکا جو صرف اور صرف جذبے سے ممکن ہوا وگرنہ تکنیکی مہارت اور تجربہ تو پہلے بھی موجود تھا! اِس خاص پہلو کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ پاکستان کی فیلڈنگ بھی نکھر کر سامنے آئی اور
بہت کم مواقعوں پر غلطیاں کی گئیں۔ 153 رنز کے تعاقب میں بابر اور رضوان نے اِس بات کو یقینی بنایا کہ ٹیم کو ایک مضبوط آغاز مل جائے اور یہی وجہ تھی کہ انہوں نے 76 گیندوں پر 105 رنز بنا کر جیت کی بنیاد کر رکھ دی۔ رضوان اور بابر کی نصف سنچریاں ٹھوس اوپننگ تھی جس کی وجہ سے نیوزی لینڈ کو سنبھلنے کا موقع نہ مل سکا۔ بابر‘ جو اِس ٹورنامنٹ میں اب تک کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے زیربحث رہے تھے آخر کار اُنہوں نے ناقدین کے منہ بند کر دیئے ہیں اور اِن کے 42گیندوں پر 53رنز میں کئی ایسے شاندار اسٹروک دیکھے گئے‘ جن کی ماہرین نے بہت تعریف کی۔سیمی فائنل میں جیت پاکستانیوں کے لئے ’خوشگوار تبدیلی‘ کے طور پر بھی سامنے آئی ہے کیونکہ صرف بارہ دن پہلے صورتحال یہ تھی کہ پرتھ میں ٹورنامنٹ کے سپر بارہ میچ میں زمبابوے کے خلاف پاکستان کی ٹیم صرف ایک رن سے حیران کن شکست دیکھ چکی تھی جس کے بعد پاکستان کا ٹورنامنٹ سے اخراج دکھائی دینے لگا تھا لیکن جب پاکستانی ٹیم نیوزی لینڈ کے خلاف میدان میں اُتری تو یہ ایک بالکل مختلف ٹیم دکھائی دے رہی تھی۔ اعتماد کھلاڑیوں کے چہروں سے چھلک رہا تھا۔ خاص بات یہ بھی رہی کہ گراؤنڈ میں پاکستان کی حمایت کرنے والوں کی تعداد اِس قدر زیادہ تھی کہ یوں لگتا تھا پاکستان ٹیم اپنے کسی ہوم گراؤنڈ پر کھیل رہی ہے۔ یہی وہ خاص نکتہ ہے کہ پاکستان میں کرکٹ کو صرف کھیل یا مشغلے کے طور پر نہیں بلکہ ایک دلچسپی و شعور کے انتہائی بلندی کے ساتھ دیکھا جاتا ہے۔ پاکستانی قوم اگر کسی ایک چیز کے لئے متحد اور سنجیدہ دکھائی دیتی ہے تو وہ کرکٹ ہے اور کرکٹ کے کھیل پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جاتا۔ امید ہے کہ ’ٹیم گرین‘ تاریخ کو دہراتے ہوئے 1992ء کے فائنل مقابلے جیسی جیت حاصل کرے گی۔ اگر ایسا ہوا تو یہ ’تیس سال بعد‘ عالمی کرکٹ پر پاکستان کی حکمرانی کا آغاز ہوگا‘ جس کا شائقین کرکٹ کو بے صبری سے انتظار ہے۔