وہ کون ہوگا جس کو چاولوں سے رغبت نہ ہو‘کون ہوگا جو پلاؤ کی سوندھی سوندھی خوشبو کا عاشق نہ ہوگا‘ کوئی بد قسمت ہوگا‘کو ن ہوگا جو پکوان کی زلفِ گرہ گیر میں دل نہ پھنسا چکا ہو‘پھر اگر ہوا تو بیمار ہوگا جسے چاول نہیں کھانا ہونگے‘ ایسے مردِ قلندر ہیں جو صبح ناشتہ میں بھی چاول نوشِ جاں کرتے ہیں مگر انکو اپنے بلڈ پریشر کی بھی پروا نہیں ہوتی پھر پکے پکائے چاولوں کی ایک قسم ہوتی تو چلو انکو نہ کھانے والے بھی موجودہوتے یہاں تو اس نعمت ِ خداداد کی درجنوں اقسا م ہیں‘عام کیلئے خاص اور خاص کیلئے عام‘ ساری کی ساری قاتل ہیں کیونکہ سنا ہے کہ انکا تعلق دل کی بیماری اور بلند فشارِ خون سے بھی ہے مگر کھانے والے کہا ں پروا کرتے ہیں بلکہ شوگر کے مریض جنکواگر بلڈ پریشر نہ ہو وہ چاولوں کے تناول کرنے سے جاں ہی کا زیاں کر سکتے ہیں مگر کون ہے جو چاولوں سے ہاتھ پیچھے کھینچتا ہو‘انکی صرف خوشبو ہی سونگھ کر بڑے بڑے پرہیزی اپنی توبہ توڑ بیٹھتے ہیں‘شادیو ں میں چپ کر کے کھائے جاتے ہیں حالانکہ اسوقت انکی تصور کی نگاہ کے آگے انکے ڈاکٹر اور منع کرنیوالے گھرکے اراکین کے چہرے گھوم جاتے ہیں مگر وہ انکو نظر انداز کر کے چاولوں کی غوری پریوں حملہ آور ہوتے ہیں جیسے سکندرِ بادشاہ نے چاولوں کے کھانے میں صحت کے راز کا کوئی یونانی نسخہ بتلارکھا ہویا برصغیر کے غوری خاندان کے بادشاہوں کی دوسری فوج سے جنگ کا سماں ہو‘پشاور کے باسیوں میں تو میوہ چنا چاولوں کا چرچا ہے پھر خاص دیگی کی ہاتھ کے چاولوں پرتو کھانے کے متوالے جان دینے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں‘چاول پکانے کا اپنا ہنر ہے مگر ایسے ہیں کہ صرف نا م کو چاول ہوں باقی انکا کام ہے اگر سخت بھی ہوں وہ حلق کے نیچے اتارتے جا ئیں گے میوہ چنا کے شوقین ہمارے ایک دوست کے سامنے اگر ایک غوری رکھ دیں تو وہ تو اونٹ کے منہ میں زیرہ والی بات ہوگی وہ اس کھانے میں بہت شہرت اختیار کر چکے ہیں انہو ں نے ایک بار اپنے ایک رشتہ دار کو اس کی بیماری کے دوران میں آپریشن کیلئے خون دیا‘مریض جب آپریشن کے بعد ہوش میں آیااور باتیں کرنا شروع کیں‘بولا یار میوہ چنا کھانے کو جی کر رہا ہے‘شاید اسکو پہلے سے پتا تھا کہ مجھے آپریشن تھیٹر میں جانے سے پہلے میرے فلاں رشتہ دار نے خون دیا ہے پھر ہوسکتا ہے کہ اسے معلوم نہ ہو مگر اسکا فیصلہ کرنا بہت دشوار ہے کیونکہ ا س بات کو برسوں بیت چکے ہیں گواہان زیرِ زمین ہیں سو بر سرِ زمین اس امر کی شہادتیں جمع کرنا از حد دشوار ہے‘سو اس تذکرے کو چھوڑ کر چاولوں کی دیدہ زیبی اوردلکشی کی بات ہو جائے ہم کون سے اچھے ہیں ہمیں تو معلوم ہو جائے کہ اس شادی میں نارنج چاول پک رہے ہیں تو ہم اس سردی میں ایڈوانس ہی جا کر دیگی کے پاس آگ پر ہاتھ سینکنے کے بہانے بیٹھ کرچاولوں کی سوندھی خوشبو کی ہوا کے دوش پر لہروں کو دماغ پروصول کر ینگے‘ہمارے ایک عزیز تھے‘ بلڈ پریشر کا عارضہ تھا ان کو فالج کا اٹیک بھی ہوا تھامگر اٹیک اس لئے کہ انہوں نے چاولوں سے کبھی ہاتھ پیچھے نہیں کھینچاایک میت کا موقع تھا او رچارپائیوں پر بیٹھے لوگوں کو چاولوں کی غوریاں تقسیم کر کے رکھی جانے لگیں وہ دور بیٹھے محرومی کے احساس سے شرمندہ تھے مگر برداشت جو نہ ہوا تو اٹھ کر ہماری جانب آئے جہاں ہم مزید تین عزیزوں کے ہمرا ہ چاولوں کا صفایا کرنے میں مصروف تھے وہ آئے تو انہوں نے ہماری غوری میں نوالہ بھر چاول لئے‘سب نے کہا اوئے یہ تو کیا کررہاہے تجھ پرچاول بند ہیں‘اس پرانہوں نے چاول کو چہرے کے قریب لا کر انکی خوشبو سونگھی اور پھر رکھ دیئے‘کہنے لگے یار بس رہا نہیں گیا‘سب چاو لوں سے مصروفِ جنگ ہیں اورمیں اکیلی جان سے تنہادورسے تماشا کر رہاہوں پھر وہ جب شہرکے ہسپتال میں داخل تھے‘ہم بھی انکی عیادت کو گئے مگر ہم نے دیکھا کہ دوپہر کے وقت اس مشہور ڈاکٹر کی دل کی وارڈ میں مریضوں کو سرکاری طور پر چاول تقسیم ہو رہے تھے‘چاولوں کے معاملے میں خود ہمارے طبیبوں کا بھی اتفاق نہیں‘ایک کہتا ہے کہ کھاؤ دوسرا کہتا ہے مت کھاؤ‘پھرمنع کرنیوالے اس حد تک منع کرتے ہیں کہ اگر تم سے کہا جائے کہ ان چاولوں کا ابلا ہوا پانی نکا لا ہوا ہے کھا ؤ کوئی مسئلہ نہیں تب بھی مت کھانا مگر دوسرا چاولوں کو اس طور ممنوع قرار دیتا ہے کہ جیسے یہ زہر کھانے والی بات ہو‘ارے اگر کسی نے دوچار نوالے لے لئے تو کون سی قیامت آ جائیگی وہ تو بیچارا ڈرا سہما اس قدر پریشان حال ایک طرف بیٹھا ہوگا کہ جیسے باراتیوں سے اس کی باپ دادا کی دشمنی چل رہی ہو۔