زندگی آسان: زندگی مشکل 

دنیا کا پہلا دستی فون (ہینڈ ہیلڈ موبائل فون) 1973ء میں نیویارکمیں ’مُٹرولا‘ نامی کمپنی نے نمائش کیلئے پیش کیا‘ جس کا وزن 2 کلوگرام تھا تاہم بنا تار (wire) فون کے ذریعے پہلی مرتبہ بات چیت کرنے کا دعویٰ پروفیسر البرٹ جان کا ہے جنہوں نے 1908ء میں ’آکلینڈ ٹرانس کانٹی نینٹل ایریل ٹیلی فون اینڈ پاور کمپنی‘ میں تجرباتی وائرلیس ٹیلی فون تیار کیا تھا‘جدت کا یہ عمل آج بھی جاری ہے‘بنیادی بات یہ ہے کہ جس تیزی سے موبائل فون مقبول ہوئے اور اِنہیں اپنا لیا گیا‘ انسانی تاریخ میں بہت کم ایجادات ایسی ہیں کہ موبائل فون کی طرح جن کا استعمال ہر شعبہئ زندگی میں کیا جا رہا ہو لیکن کیا موبائل فون استعمال کرنیوالے اپنے دہائیوں کے تجربات کی روشنی میں اِس ایجاد سے مطمئن ہیں؟کیا موبائل فونز نے زندگی کو آسان بنایا ہے یا اِسے مشکلات سے دوچار کیا ہے؟ناروے سے تعلق رکھنے والی موبائل فون کمپنی ’ٹیلی نار‘ کی ایشیائی شاخ نے موبائل فون کے استعمال اور اِس تجربے سے حاصل اسباق کے حوالے سے ایک پاکستان کے طول و عرض میں ایک جائزہ (سروے) کیا جس میں انکشاف ہوا ہے کہ 63فیصد پاکستانیوں کا خیال ہے کہ موبائل آلات اور موبائل فون ٹیکنالوجی نے اُن کے حالات زندگی‘ روزگار اور صلاحیتوں کو نکھارنے میں ”مثبت کردار“ ادا کیا ہے‘ رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا اور جنوبی مشرقی ایشیا کے آٹھ ممالک میں آٹھ ہزار سے زائد موبائل انٹرنیٹ صارفین پر مبنی رپورٹ کے ذریعے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ گزشتہ تین برس میں کام کرنے کی جگہوں یا دفاتر میں موبائل فون اور انٹرنیٹ عام زندگیوں کو مثبت انداز میں متاثر کررہا ہے‘ یہ جائزہ ’ٹیلی نار‘ ایشیا کی پچیسویں سالگرہ کے موقع پر ’ڈیجیٹل لائف ڈی کوڈ‘ کے عنوان سے کی گئی‘ اِسے ایک باقاعدہ دستاویز  کی صورت جاری کیا گیا ہے‘ اپنی نوعیت کے اِس منفرد تجزیئے میں اس پہلو کو بھی دیکھا گیا ہے کہ کورونا وباء کے بعد ایشیا میں لوگ موبائل فون کے استعمال سے اپنی روز مرہ زندگی کو کس طرح تبدیل کررہے ہیں اور نئی تہذیب اور ثقافت کو اپنانے میں کتنی کشادہ دلی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ یہ جائزہ بنگلہ دیش‘ انڈونیشیا‘ ملائشیا‘ پاکستان‘ فلپائن‘ سنگاپور‘ تھائی لینڈ اور ویت نام میں کیا گیا۔ ٹیلی نار ایشیا کے سربراہ جورجین روسٹرپ نے اِس حوالے سے ایک بیان میں کہا کہ ”مذکورہ مطالعے میں موبائل کی رابطہ سازی میں ترقی‘ پیداوار اور اقتصادی مواقع فراہم کرنے کا حوالہ دیا گیا ہے اور بنیادی طور پر یہ معلوم کرنے کی کوشش کی گئی کہ ٹیکنالوجی کا شہری اور دیہی آبادیوں‘ چھوٹے بڑے کاروبار‘ صنعتوں اور سرکاری و نجی فیصلہ سازوں پر اثر کیا ہے اِس کے ذریعے کسی ایک شعبے یا ہم خیال موبائل صارفین کس طرح استفادہ کر رہے ہیں یہ حقیقت اپنی جگہ اہم ہے کہ کورونا وبا ء کی وجہ سے پابندیوں میں ’موبائل فونز‘ سے استفادہ اور اِس پر انحصار میں اضافہ ہوا ہے۔ مطالعے میں زندگی کے معیارکے حوالے سے بھی روشنی ڈالی گئی جس میں لوگوں کا خیال تھا کہ موبائل فون نے نہ صرف آمدنی اور روزگار فراہم کیا بلکہ انکے معیار زندگی پر بھی مثبت اثرات مرتب کئے ہیں؛سروے میں شمولیت کرنیوالے نصف موبائل صارفین کا خیال تھا کہ کام کاج کیلئے موبائل کا استعمال کرنا اور ان کے معیار زندگی کو بہتر کرنے میں مدد کے علاؤہ موبائل قابل بھروسہ ساتھی ہے جبکہ پاکستان میں چھیالیس فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ موبائل ٹیکنالوجی نے انکے معیار زندگی میں مثبت تبدیلی پیدا کی ہے جبکہ چوالیس فیصد خواتین کا خیال ہے کہ موبائل ٹیکنالوجی کے ذریعے انہیں کام کاج (ملازمت یا روزگار) کے نئے مواقع ملے ہیں‘ پاکستان میں فری لانسرز‘ کاروباری افراد اور ٹیکنالوجی کے شوقین افراد موبائل فون کے ذریعے رابطہ کاری کے مواقع کو سمجھ کر اِسکے ذریعے روزگار کے مواقع پیدا کر رہے ہیں اسکے علاؤہ موبائل ٹیکنالوجی نے آمدنی کے جو نئے مواقع پیدا کئے  اُن میں دھوکہ دہی پر یقین رکھنے والے عناصر بھی شامل ہو گئے ہیں‘یہیں سے حکومتی اداروں کا کام شروع ہوجاتا ہے جو موبائل فون کے ذریعے اپنی زندگیوں میں آسانیوں کی توقع اور تلاش کرنیوالوں کے مفادات کا تحفظ کر سکتے ہیں‘مذکورہ جائزے میں اگرچہ ’موبائل فون‘ کے ذریعے ’دھوکہ دہی (فراڈ)‘ کو موضوع نہیں بنایا گیا اور نہ ہی موبائل فون کے ذریعے انٹرنیٹ تک رسائی رکھنے والے صارفین کو نشہ آور گیمز اور اخلاقی اقدار سے متصادم مواد تک باسہولت رسائی کا ذکر کیا گیا ہے جو ایشیائی ممالک کیلئے بالخصوص ایک انتہائی تشویشناک بات ہے مطالعہ کے مطابق دس میں سے آٹھ موبائل فون صارفین کا خیال ہے کہ موبائل ٹیکنالوجی سے انکی کارکردگی اور صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔