روس یوکرین تنازعہ آٹھ سال قبل شروع ہوا جب یورپی ممالک اور امریکہ نے روس کے حمایت یافتہ ’یوکرینی صدر وکٹر یانوکووچ کا تختہ الٹ دیا جس کے نتیجے میں روس کا کریمیا سے الحاق اور ڈونباس جنگ ہوئی۔ جب یوکرائن کا موجودہ صدر زیلنسکی سال 2019ء میں اقتدار میں آیا تو انہوں نے یوکرین کو یورپی یونین اور نیٹو دونوں میں شامل ہونے کا اعلان کیا جو روس کے لئے قابل قبول نہیں تھا اُور اِس ارادے سے باز رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے روسی صدر پیوٹن نے دھمکی دی تھی کہ وہ یوکرین پر حملہ کر دے گا اور پھر ایسا ہی ہوا۔ روس یوکرین جنگ نے جغرافیائی سیاسی منظر نامے کو متاثر کیا ہے۔ سال دوہزاراُنیس میں‘ امریکہ اور یورپی اتحادیوں نے وینزویلا کے مادورو کے خلاف گھیرا تنگ کیا تھا۔ اسے ایک ڈکٹیٹر اور دھوکہ دہی کے طور پر نظر انداز کیا گیا اور جوآن گوائیڈو کو جلاوطنی میں عبوری صدر کے طور پر تسلیم کر لیاگیا۔ اب جبکہ روس نے یورپ کو اپنی گیس کی فراہمی روک دی ہے اور قطر نے دو ٹوک الفاظ میں جرمنی‘ فرانس‘ بیلجیئم اور اٹلی کی گیس سپلائی کی درخواستوں کو مسترد کر دیا ہے تو دیکھنے میں آیا ہے کہ یورپی ممالک بالخصوص فرانس اپنی ماضی کی غلطیوں کو درست کرنے کے لئے اُن سبھی کرداروں (ممالک) سے بات کر رہا ہے جہاں سے اُسے گیس مل سکتی ہے لہٰذا جیسا کہ جیو اکنامک دنیا عالمی معاشی کساد بازاری کی طرف بڑھ رہی ہے‘ عالمی طاقتیں ہر طرح کے رد عمل کا اظہار کر رہی ہیں اور ہر طرح سے بے چین و متزلزل دکھائی دے رہی ہیں اور اگر یہ صورتحال برقرار رہتی ہے تو اندیشہ ہے کہ یہ صورتحال ایک اور عالمی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ پہلے سے ہی‘ پورا مشرقی یورپی بیلٹ جنگ زدہ ہے۔ مالڈووا سے پولینڈ تک ہر ایک اس میں شامل ہے۔ اور دنیا بھر میں گندم اور سورج مکھی (غذائی اجناس) درآمد کرنے والے مشکلات سے دوچار ہیں‘ جن کی فہرست میں پاکستان بھی شامل ہے۔ زیلنسکی اور پیوٹن دونوں ہی مذاکرات کے لئے تیار ہیں لیکن دونوں مشکل حالات میں پھنسے ہوئے ہیں۔ خاص طور پر زیلنسکی‘ جس نے کھلے عام پیوٹن سے بات کرنے سے انکار کر رکھا ہے اور کہا ہے کہ وہ صرف ایک نئے روسی رہنما سے بات کریں گے۔ افواہ یہ ہے کہ ایسا کرنے کے لئے اُنہیں امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا۔ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کا ایک محاذ غصے بھرے بیانات (الفاظ) اور ایک دوسرے کی شکست کے حوالے سے دعوؤں کی وجہ سے بھی گرم ہے‘ جن میں مغربی ذرائع میڈیا ابلاغ بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں اور وہ ایسی خبروں کو پھیلا رہے ہیں جس سے جنگ مزید بھڑکے اور صدر پیوٹن کا غصہ بڑھے۔ ایک سازش یہ بھی ہو رہی ہے کہ روس میں صدر پیوٹن کا تختہ اُلٹ دیا جائے۔ ایک طرف‘ یوکرینی ذرائع یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ روس پہلے ہی 77ہزار سے زیادہ افراد اور ہزاروں مسلح گاڑیاں‘ لانچنگ سسٹم اور ہوائی جہاز کھو چکا ہے اور دوسری طرف یوکرین کی پوری مشرقی پٹی پر قابض ہے اور مسلسل پیش قدمی کر رہا ہے۔ روس اپنے بیلسٹک اور کروز میزائلوں اور ڈرون طیاروں کے ساتھ مزید یوکرینی شہروں تک بھی پہنچ رہا ہے۔ توانائی کے بنیادی ڈھانچے پر اِن حملوں نے کیف‘ لویف‘ زپوریزہیا اور کھارکیو نامی یوکرائنی شہروں میں بجلی و ایندھن کی فراہمی بند کر دی ہے اور بلیک آؤٹ شروع ہے جبکہ صدر پیوٹن نے امریکی خلائی سیارے (جی پی ایس سیٹلائٹ) پر حملہ کرنے کی دھمکی دی ہے جو جنگ میں یوکرین کی مدد کر رہا ہے۔زیلنسکی اور دیگر یورپی رہنماؤں کو سوچنا چاہئے کہ امریکہ اپنی سرزمین سے دور جنگیں بھڑکانے کا متحمل ہوسکتا ہے لیکن کیا یورپ ممالک اپنے پڑوس میں آگ بھڑکانے (جاری رکھنے) کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ اگر یورپ یوکرین کو یورپی یونین اور نیٹو میں شامل کرنے کی اپنی کوشش سے پیچھے ہٹتا ہے‘ تو یہ روس کے غم و غصے کو کم کرنے کا مؤجب ہو سکتا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ یورپی یونین دونوں چاہتی ہے کہ جنگ جاری رہے جبکہ خود کو یوکرین کا بہترین دوست اور خیرخواہ ظاہر کرنے والا امریکہ افغانستان سے لیبیا تک پوری مسلم دنیا میں تباہی پھیلانے کے بعد‘ اب کثیر المحاذی لڑائیوں کی تیاری کر رہا ہے لیکن وہ یہ سب کچھ اپنی سرزمین اور اپنے وسائل سے دور رہتے ہوئے بڑی ہی احتیاط سے کر رہا ہے اور یہی وہ نکتہ ہے کہ جسے یورپی دنیا کو سمجھنا چاہئے کہ اگر اُن کی سرحدوں پر جنگ کے آلاؤ بڑھے تو اِس کی چنگاریاں اور دھواں اُنہیں بھی یکساں متاثر کرے گا اور دانشمندی اِسی میں ہے کہ اگر روس یوکرین جنگ بذریعہ مذاکرات کل ختم کرنی ہے تو اِسے آج ہی ختم کرنے کے لئے مذاکراتی کوششوں کا آغاز ہونا چاہئے۔