اب تو خیر سے گوڈوں گٹوں سے چٹخنے کی آوازیں آنا شروع ہو گئی ہیں۔جوان تو اس قسم کے آزار سے بے خبر ہیں بہتر ہے بے خبر ہی رہیں۔مگر جو ہماری عمر کے گئے گزرے ہیں ان کے ذہنوں میں الارم بجنے لگا ہے کہ تیار ہو جاؤ۔ اب آگے کے دن اور بھی ٹھنڈے ٹھار ہوں گے اور پُر خمار ہوں گے مگر کچھ لوگ گھٹنوں اور جسم کی دوسری ہڈیوں کے کارن بیمار ہوں گے اور جان سے بیزار ہوں گے۔ ان سردیوں میں اور ساون کے مہینے میں پرانے درد پھر سے جاگ اٹھتے ہیں۔ انگڑائیاں بھرتے ہیں اور نئے کُڑول پڑتے ہیں اورپچھلے درد یادآتے ہیں۔ جو اس وقت بستر میں دبکے بیٹھے ہیں چاہتے ہیں ہمارے سامنے سب ناشتہ واشتہ دھر دیا جائے اور ہم بستر سے باہر سر نہیں نکالیں۔کیونکہ ہڈیوں کے چٹاخ پٹاخ کی آوازیں ان کو بستر کے اندر ہی سنائی دیتی ہیں۔ اس پر اگر وہ باہر نکلیں اور کسی کے سہارے اٹھیں تو ان کا کیا حال ہو۔ روشن دان پر رنگین کاغذ اور پلاسٹک شیٹ جو اتاری تھیں کہ گرمی ختم اوربس ہے اے سی بند کر دیئے اب تازہ ہوا کی ضرورت ہے تو اب وہی روشن دان دوبارہ سے بند کرنا ہوں گے۔تاکہ اب کے ٹھنڈی ہوا اندر نہ آنے پائے۔ پاؤں ٹھنڈے ہونے شروع ہو گئے ہیں۔مطلب یہ کہ جرابیں نکال لو۔ہم نے تو نکال لی ہیں اور پاؤں گرم رکھنا شروع کر دیئے ہیں۔نلکہ کا پانی کچھ زیادہ ہی ٹھنڈا لگنے لگا ہے۔ جیسے کسی نے اوپرچھت پر ٹینکی میں برف کے ڈلے گرا دیئے ہیں۔جوانی بھی کیا چیز ہے۔حالی نے کہا ہے ”گوجوانی میں تھی کج رائی بہت۔پر جوانی ہم کو یاد آئی بہت“۔سخت سردی میں جو پو ماہ کے دیہاڑے ہیں ان میں جوان لوگ اکہری قمیض میں وہ بھی گریبان کھلا ہو گھومتے ہیں۔ دیکھتے ہوئے حیرانی تو ہوتی ہے۔مگر اس سنگل قمیض سے جب اپنا گریبان یاد آتاہے جو انھیں مہینوں میں کبھی ہوا کرتا تھاتو حیرانی کے دریا میں سے واپس نکل آتے ہیں۔کیونکہ ہم بھی تو جوان ایسے تھے۔ اگر اب ویسے نہیں تو کیا ہوا۔اب کیسے ہیں یہ تو ہم ہی جانتے ہیں اور جوانوں کو علم نہیں یا پھر انھیں کو معلوم ہے جوہم جیسے ہیں۔ ماضی میں ہماری جوانی کے سامنے جو ٹخنوں او رگھٹنوں کے درد کے شاکی تھے ان پرہمیں حیرانی ہوتی تھی کہ شاید ان کو کوئی خاص بیماری ہے۔مگر اب آکر معلوم ہواکہ یہ پچپن کے بعد کی عام بیماری ہے جو ہر ایک کو تو نہیں مگر ہر دوسرے بندے کو لاحق ہے۔ایسے میں گرم لباس اور چترالی ٹوپی او رپٹی پہن کر فیشن کو بھی برقرار رکھنا ہے تاکہ لوگ خوش لباس کہیں اور اندر اندراپنے آپ کو سردی سے بچانا ہے۔کیونکہ ہماراتوزکام بھی نرالا ہے۔جب تک ناک سے خون نہیں بہے تب پتا چلتا ہے کہ اب زکام اپنے عروج پر ہے۔جب زکام کا یہ حال ہے تو گوڈوں کا حال کیا خاک اچھا ہوگا۔ جو کوئی کسی نئی دوا کا نام بتلادے وہ خرید فرماتے ہیں کہ گوڈوں کو شفا ملے۔مگر درد کی گولیوں کی بنیاد میں ایک ہی درد کُش نسخہ ہوتا ہے۔جب تک گولیوں ہتھیلی پر ڈال کھلے ہونٹوں کے اندر نہیں اچھالیں گے اور اوپر سے دو گھونٹ پانی پی کر گولیاں نیچے تک نہیں پہنچیں درد میں کہاں کمی آنے والی ہے۔ آج یہ تحریر لکھنے سے پہلے اپنی مجلسِ شوریٰ کے مشیران سے استفسار فرمایا کہ آج کا کالم کس موضوع پرہو آپ کا کیا خیال ہے۔اس پر ایک مشیر ِ خاص نے فوراًسے پہلے کہا گھٹنو ں کے درد پر لکھو۔اس کایاد دلانا تھا کہ مجھے نواب داغ کا شعر یاد آیا”لیجئے سنیے اب افسانہ ئ فرقت مجھ سے۔ آپ نے یاد دلایاتو مجھے یاد آیا“۔یاد کیسے آیا کہ اُس وقت اپنے ہی گوڈوں گٹوں کی چُولوں کی کھڑکھڑاہٹ محسوس ہوئی اور قلم سے کہا چل چل میرے بھائی۔مگر اس کے آگے ہاتھ نہ جوڑنے پڑے۔پھر نہ تو پاؤں پڑنا پڑے کہ اگلے کے چرنوں میں گرنے کے لئے بھی کمر سے چٹاخ کی آواز آناتھی۔گوڈوں گٹوں کی بیماری اور آزاری والے تو اب اپنی گولیاں وغیرہ نکال کر رکھ لیں مولا جانے کیا ہوگا آگے“۔ابھی دسمبراور جنوری کے دو زہرناک مہینے اپنے پھن پھیلائے راستے میں دیوار بنے کھڑے ہیں۔ ان کو بھی پیچھے چھوڑنا ہے اور زندگی کو بھی استوار رکھنا ہے۔