ٹھٹھرتی سردی

بارش کے جاری سلسلے نے سردیوں کا آغاز کر دیا ہے اور یہ موقع اِس بات پر غور کرنے کا ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں سیلاب متاثرین امداد کے منتظر ہیں جنہیں فراہم کردہ خیمے اور ضروریات موسم گرما کے لحاظ سے تھیں اور اب ٹھٹھرتی سردی بالخصوص بارشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اُنہیں مختلف اسباب کی ضرورت ہے جس کے لئے حکومتی اور امدادی اداروں کو عطیات جمع کرنے کے لئے پھر سے متحرک ہونا چاہئے۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ خود حکومتی ادارے ایسے اعدادوشمار تو جاری کرتے ہیں کہ سیلاب متاثرین کی تعداد کتنی ہے۔ سیلاب سے کتنے بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے اور سیلاب متاثرین کی ضروریات یا اُنہیں لاحق صحت کے خطرات کیا ہیں لیکن اِن متاثرین اور امداد کے منتظر افراد کی مدد کے لئے خاطرخواہ ہمدردی کا اظہار نہیں کیا جا رہا۔ سیلاب متاثرین کے ریلیف کیمپوں میں نوزائیدہ بچوں‘ ماؤں اور حاملہ خواتین کی موجودگی اور موسم سرما کی آمد پر جس قسم کی تشویش کا اظہار ہونا چاہئے وہ دیکھنے میں نہیں آ رہا اور نہ ہی متاثرہ صوبہ سندھ و بلوچستان میں فوری امداد کی ضرورت کے لحاظ سے خیبرپختونخوا میں کسی بھی قسم کی ہلچل پائی جاتی ہے۔ خود خیبرپختونخوا کے سیلاب سے متاثرہ ایسے علاقے موجود ہیں جہاں موسم سرما کی پہلی برفباری بھی ہو چکی ہے اور وہاں کے رہنے والوں تک تاحال  مناسب امداد نہیں پہنچی۔ اِس حوالے سے سنجیدگی سے غور کی ضرورت ہے کہ خیبرپختونخوا سے سندھ تک پھیلے سیلاب متاثرین کا بڑا طبقہ ملازمت پیشہ نہیں بلکہ زرعی معیشت و معاشرت پر انحصار کرتا ہے جہاں ایک طبقہ دوسرے طبقے کا مددگار ہوتا ہے لیکن حالیہ سیلاب نے ایسی تباہی پھیلائی ہے کہ ایک دوسرے کی مدد کرنے کا جذبہ رکھنے والے بھی سوائے آنسوؤں کے کچھ عطیہ نہیں کر پا رہے۔ یہ پہلو بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ سندھ کے سیلاب متاثرین کے کیمپوں میں 2 ماہ سے بھی کم عرصے میں چار ہزار سے زیادہ بچے پیدا ہوئے ہیں اور اِن نومولود بچوں کی ضروریات الگ سے پوری کرنی ہیں۔ سیلاب متاثرین جو کہ پہلے ہی اپنے گھروں سے دور غیر معمولی مشکل حالات میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں لیکن سخت سردی کے انہیں زیادہ خطرات سے دوچار کر دیا ہے‘ جہاں خوراک کی قلت کے ساتھ اب گرم کپڑوں کی کمی کا مداوا ہونا چاہئے۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں اور امدادی کیمپوں میں بیماریوں کے پھیلاؤ پر قابو پانا صحت کی دیکھ بھال کرنے والے اہلکاروں اور کارکنوں کے لئے پہلے ہی چیلنج رہا ہے۔ سرد موسم کے خلاف مناسب مدد کی عدم موجودگی بیماریاں پھیلنے کے خطرات کو مزید بڑھا دے گی‘ جو نوزائیدہ (نومولود) بچوں اور بالخصوص حاملہ خواتین کے لئے جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔ سست  امدادی ردعمل کو دیکھتے ہوئے‘ متاثرین سیلاب کو مستقبل میں بھی مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اِن کی خوراک اور غذائیت کی مقدار پہلے ہی ناکافی تھی اور اب یہ مزید ضروریات پر سمجھوتہ کر رہے ہیں۔ اس سے اِن کی جسمانی صحت اور تندرستی متاثر ہوگی جبکہ غذائی قلت اور سٹنٹنگ کے امکانات بڑھ جائیں گے۔  توجہ طلب ہے کہ فی الحال صحت عامہ سے متعلق امور کی دیکھ بھال کرنے والے حکام و ماہرین اور عہدیداروں کو ایک ہی وقت میں متعدد چیلنجوں کا سامنا ہے۔ انہیں وفاقی حکومت‘ غیر سرکاری تنظیموں اور سول سوسائٹی کی مدد کی اشد و فوری ضرورت ہے تاکہ مستحقین کو گرم کپڑے اور دیگر بنیادی ضروریات و معاون اشیاء فراہم کرنے کی کوششوں کو تیز کیا جا سکے۔ زیادہ تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے‘ نوزائیدہ بچوں کو زکام (فلو) اور دیگر سرد موسمی بیماریوں سے بچاؤ کے ٹیکے بھی لگوانے کا بندوبست ہونا چاہئے اور اِس سلسلے میں احتیاطی تدابیر و امدادی سرگرمیاں صرف کسی ایک انتخابی حلقے یا صوبہ سندھ تک محدود نہیں ہونی چاہئیں۔