سیر و سیاحت او رسیر سپاٹا 

 اگر سردی ہو تو بندہ گرمی کو انجوائے کرنے گرم علاقوں میں پہنچ جاتا ہے۔جبکہ گرم علاقوں والے درجہ حرارت کے زیادہ ہونے سے سردی کی سرزمینوں کی سیاحت کو پہنچ جاتے ہیں۔ترس ترس کر گرمی جاتی ہے اور سردی کاموسم ہر طرف چھا جاتا ہے۔مگر ہمارے اپنے اس سردی میں گرمی سے لطف لیتے ہیں۔جو حاصل توہوتا ہے مگر اس سے بندہ کبھی کسی کیفیت میں بیزار ہو جاتا ہے۔گرم موسم میں دور پار کے شہروں سے وہاں کے شہری جوق در جوق اور جوک درجوک صوبہ کے پی صوبے کے ٹھنڈے اور بالائی علاقوں میں اپنی سیر و سیاحت کی پیاس بجھانے کو پہاڑوں کی اور روانہ ہوجاتے ہیں۔پھر پہاڑ کے رہائشی سردی سے تنگ آکر برف باری میں خوب ستائے جانے کے بعد کاروبار کے لئے گرم شہروں کا رخ کرنے کونیچے شہروں کی طرف آ جاتے ہیں۔پشاور میں کوئی کہاں کوئی کہاں کام کر رہاہے۔امریکہ کے شہر نیویارک میں تمام دنیا کے ملکوں سے لوگ پہنچے ہوئے ہیں او رزندگی گزارنے کو کماکما کر گھر بھیجتے ہیں۔نتھیا گلی کے لوگ ملتان جیسے گرم ترین شہر میں کام کاج میں مصروف ہیں اور ملتا ن کے لوگ پشاور میں بیکریاں کھول کر بیٹھے ہوئے ہیں۔جرمنی کے دوست نے بتلایا کہ وہاں سال کے بارہ مہینے سردی رہتی ہے۔اس لئے ہم گرمی کا مزا لینے کو پاس کے ملک ترکی چلے جاتے ہیں۔ جاننا چاہتے ہیں کہ آخر گرمی کہتے کسے ہیں یہ بھی تودیکھیں۔وہاں گرمی کے دنوں میں عیش و عشرت کر کے واپس جرمنی لوٹ جاتے ہیں۔گویا انسان کی طبیعت بھی عجیب ہے۔جو میسر ہے اس سے راضی نہیں ہے۔ آدمی کی طبیعت میں تبدیلی کا عنصر بہت نمایاں ہے۔ہمہ وقت تبدیلی کی تلاش میں رہتا ہے۔ارضِ وطن کے شہر کراچی میں پورے ملک سے لوگ جا کر آباد ہوئے ہیں۔ تین کروڑ کے شہر میں ہر شہر کا بندہ آکر رزق کما رہا ہے۔ایک تو وہاں کا موسم بھی معتدل رہتا ہے۔پھر خاص اپریل میں تو وہاں گرمی پورے عروج پر ہوتی ہے۔جولائی میں وہاں ٹھنڈی ہوائیں او ربادل ہوتے ہیں۔گرمی پورے طور پر نہیں ہوتی او رسردی کا توسوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔اس لئے وہاں کاروباری مراکز زیادہ ہیں او رلوگ مستقل طور پروہاں رہائش پذیر ہیں۔پشاور میں بھی پورے کے پی سے لوگ آکر آبادہیں یہاں کی سہولیات سے فائدہ حاصل کرتے ہیں۔مگر اس کے باوجود ہمارے ملک میں سیر و سیاحت اور سیر سپاٹا بھی زیادہ ہے۔مگر سیر و سیاحت اورسیر سپاٹے میں اک ذرا فرق ہے۔سیر و سیاحت ایک سنجیدہ عمل ہے اور سیر سپاٹا میں یک گونہ غیر سنجیدہ عوامل ہوتے ہیں۔سیر و سیاحت میں خاموشی اور اپنے مقصد کے ساتھ لگاؤ ہوتا ہے کہ ہم جس مقام کی طرف جا رہے ہیں وہاں کی تہذیب رہن سہن اور دیگر عوامل کا مطالعہ کریں گے۔گویا یہ ایک مطالعاتی دورہ ہوتا ہے۔سیر وسیاحت میں شاید ایک بار جائیں تو وہاں دوبارہ نہ جائیں اور جائیں تو نئے مقامات اور راستوں کی کھوج کرنا ہو۔مگر سیر سپاٹا میں ایک ہی مقام پر ہر سیزن میں پہنچ جانا اور پتیلے ہانڈیاں ٹماٹر پیاز تک ساتھ لے جانا وہاں جاکر خود پکانا اور ہلڑباز ی اور شور شرابا برپا کرنا یہ سب ناہمواریاں شامل ہیں۔وہاں جاکر کسی خوبصورت وادی میں جہاں دیگچے آگ پر چڑھائے گئے ہوں اور وہاں کی لکڑی اور گھاس وغیرہ تنکے تیلے لے کر اپنی ہنڈیا پکانا درست تو نہیں۔جہاں خیمہ لگائے ہوتے ہیں وہ جگہ بھی آخر کسی کی ملکیت ہی ہوگی۔۔ اس تمام کاروائی کی مووی وہاں سے دوستوں کو سوشل میڈیا پر ارسال کرتے ہیں۔کھانوں تک کی تصویریں فیس بک پر ڈال دیتے ہیں۔ جن کو ان کے احباب اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ کر دیکھتے ہیں۔ کیونکہ اگر وہاں کے پہاڑوں کے فوٹو ہوں وہاں کی سینریاں ان باکس میں بھجیں یا وٹس ایپ پریا فیس بک پر۔یہ توقابلِ قبول ہے۔کیونکہ آپ ان قدرتی مناظر کے لئے وہاں پہنچے ہیں۔جو آپ کے میدانی علاقوں کے گھروں کے آس پاس دستیاب نہیں۔ اس طرح اپنے آپ کو ہلکا کرنے سے کسی اور کاکیانقصان ہے۔الٹا دیکھنے والوں کے ذہنوں پر آپ کے ذوق وشوق کے خلاف سوالات اٹھ سکتے ہیں۔