ڈرامہ انار کلی 

مقابلے کی فضا تو ہر جگہ ہوتی ہے۔مگر کاروبار میں مقابلے کی فضاکا فائدہ گاہک کو پہنچتا ہے۔ یہ وہ اصول ہے جو پروفیسر صاحب مرحوم نثار نے گورنمنٹ کالج میں ہم کو گیارہویں جماعت میں اکنامکس پڑھاتے ہوئے سکھلا یا تھا۔بلکہ وہ پڑھاتے ہوئے اپنے آپ سے بیگانہ ہو جاتے تھے‘سمجھا رہے تھے کہ جیسے ریل گاڑی میں ریل کیساتھ ڈبہ اور پھر ڈبہ ہوتا ہے۔ہاتھ سے ڈبہ بناتے اور کلاس روم کے دروازے کی طرف کھسکتے جاتے۔ حتیٰ کہ کمرے کے دروازے سے باہر نکل کر برآمدے تک اس ریل گاڑی میں ڈبہ لگاتے جاتے‘ ہم یہاں ہنس ہنس کرلوٹ پوٹ ہو جاتے‘ مگر جبڑوں کو سنجیدہ کر کے زبان کو دانتوں تلے داب لیتے مگر ہنسنے کو پیٹ بل پڑ رہے ہوتے۔ کیا بیبا استاد تھے۔آج ہم بھی جب پڑھائیں توان کی نقش قدم پرچل کر ایکٹنگ کی دنیا میں داخل ہوتے ہیں۔ کیونکہ اردو ادب میں ڈراموں اور کہانیوں میں عورتوں کے کرداروں کی نقل اتارتے ہوئے خواتین جیسی باتیں اور حرکتیں اور چشم ابرو کے اشارے اور ہمسائیوں کی لڑا ئی کی لکھی ہوئی روداد اداکاری کر کے بتلاتے ہیں تو سٹوڈنٹ خوشی سے جھوم اٹھتے ہیں‘ہم بھی اپنے آپے میں نہیں ہوتے‘مگر بعد میں سٹوڈنٹس ضرور 
اس کارکردگی کی زبانی رسید دیتے کہ سر آ ج تو مزا آگیا۔ ہم کہتے کہ جس سٹوڈنٹ کو پڑھنے میں دروانِ کلاس مزا آتا ہے تو سمجھوٹیچر کے الفاظ اس کی سمجھ میں خوب آ رہے ہیں۔مگر وہ کہتے سر جی ہمیں آپ کی ایکٹنگ کابہت مزا آیا۔سچی بات تو یہ ہے کہ پروفیسر جب تک کرداروں کی نقل نہ کرے نہ تو سٹوڈنٹس کے پلے کچھ پڑتا ہے او رنہ ان کو سمجھ آتا ہے۔خاص طور پرڈرامہ پڑھاتے ہوئے مختلف کرداروں کی آواز مختلف نکالناپڑتی ہے جن میں خواتین کا کردار بھی مجھے اداکرنا پڑتا ہے‘ پھر لکھے ہوئے ڈرامہ کی بریکٹ میں جو حرکت دی گئی ہوتی ہے اس کو بھی اختیار کرنا پ ڑتا ہے۔پسلیوں پرہاتھ رکھ کر سائیڈ پراٹھائے ہوئے بچے والی خاتون کردار کی طرح کر کے بتلاناپڑتا ہے۔اس پر کلاس کے سٹوڈنٹ ہنس بھی پڑتے ہیں اور کلاس میں ان کی دل چسپی بھی برقرار رہتی ہے‘یہ دلکشی اردو ادب یا کسی بھی ادب کے پڑھانے کے وقت کام میں لائی جا سکتی ہے میں کہتا ہوں کہ ادب کے استاد کو کلاس میں کورس کے مطابق اداکاری کرنا چاہئے۔ورنہ تو کلاس میں بیٹھے چہروں کوسمجھ نہیں آئے گا‘یہ ایڈوانٹیج ادب کی جماعت میں ہوتا ہے‘مگر شرط یہ ہے کہ وہ ہائیر کلاس ہو جو خالص ادب کیلئے مخصوص ہو جیسے بی ایس اردو یا پہلے کی ایم ا ردو کی کلا س ہو۔ساتھ یہ کہ سننے والے کان اور دیکھتی آنکھیں بھی علم کے حصول میں سنجیدہ ہوں‘کیونکہ ڈرامہ ایسی صنف ہے کہ جس کوپڑھاتے وقت ہرکردار کے ڈائیلاگ ادا کرنا پڑتے ہیں‘کردار کا مکالمہ شروع ہو تو پہلے بریکٹ میں اس مکالمے کے اداکرنے کا انداز بھی لکھاہوتا ہے‘ادب تو پڑھانے میں بھی مزے کی چیز ہے بشرطیکہ استاد اپنے پیشے کے ساتھ صحیح معنوں میں وابستہ ہو پھر طالب علم کو بھی لطف آتا ہے بشرطیکہ وہ بھی کچھ حاصل کرنے کیلئے بیتاب ہو اورسنجیدہ ہو‘اکبر مغلیہ بادشاہ اور شہزادہ سلیم کی آپس میں کشاکش کا احوال پڑھ کر سنانا اور اکبر جیسی دبدبہ والی آوازنکالنااورپھر شہزادہ سلیم جیسی با ادب آواز نکالنا پھرایک ہی لب و دہن سے سلیم کی 
والدہ ملکہ جودھا بائی کی منحنی صدا دینا‘یہ انار کلی ڈرامہ ہے جو امتیاز علی تاج کا لکھاہوا ہے‘پھرخو د انار کلی کے بولنے کے انداز میں ایک طرح کا خوف اور پھر ایک موقع پر محبت کا راز کھل جانے پراس کا بے خوف ہوجانا سب کچھ اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ استاد کو اگر اداکار نہیں ہونا چاہئے مگر اس کوان مکالمات کے ادا کرنے میں اداکاری ضرور کرناہوگی‘ ورنہ تو پڑھانا آسان ہے بس پیچھے چھوڑآگے دوڑ‘ چپکے سے کلاس میں پیریڈ کی گھنٹی کے بجنے سے پہلے کمرہ جماعت سے نکل کر سٹاف روم میں آؤ جہاں چائے کا گرم گرم کپ اس سردی میں آپ کاانتظار کر رہا ہوگا۔ استاد کو صحیح معنوں میں استاد ہونا ہے‘ ادب کی کلاسوں میں جو یہ کرداروں کی حرکات وسکنات کی اداکاری کرنا ہے ا س میں تھوڑی مشکل ہوتی ہے‘کیونکہ یہا ں ہراستاد نے اپنی آن بان اور شان س دیتے ہیں‘مگر ٹیچنگ تو اندر کلاس روم کے اپنے آ پ سے کبھی بیگانہ ہوجانے کا نابنا رکھی ہوتی ہے جو ان کی گفتگو کے رکھ رکھاؤ اور ان کے بیش قیمت لباس سے ظاہر ہوتی ہے‘ادب کے اکثر استاداپنے رکھ رکھاؤ کیساتھ کلاس میں درم بھی ہے۔مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ ادب کی کلا س میں لطف تو آتا ہے مگر اس کے پڑھانے میں تھوڑی مشکل بھی پڑتی ہے۔