وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق حالیہ سیلاب کی وجہ سے اجناس و اشیا کی فراہمی میں خلل پڑا ہے جس کی وجہ سے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں غیرمعمولی یعنی 44.58 فیصد جیسا تاریخ کا بلند ترین اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اگر مہنگائی کی وجہ صرف مواصلاتی رابطے منقطع ہونے ہیں تو اِن کی بحالی کس کا کام ہے؟ اگر پاکستان میں موٹرویز کی بجائے ریلوے لائن کی توسیع پر توجہ دی جاتی تو آج صورتحال قطعی مختلف ہوتی اور زیرآب سندھ کی وجہ سے سمندر کے راستے آنے والے اجناس و سامان کی اندرون ملک رسائی میں خلل پیدا نہ ہوتا۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے اطلاع دی ہے کہ تین کروڑ تیس لاکھ (تینتیس ملین) لوگ متاثر ہوئے۔ مجموعی طور پر 84اضلاع کو باضابطہ طور پر ”آفت زدہ“ قرار دیا گیا اور 1696 اموات کی تصدیق کرتے ہوئے ساڑھے چوبیس لاکھ مکانات سیلاب سے جزوی متاثر یا تباہ ہیں اور گیارہ لاکھ سے زیادہ مال مویشی ہلاک ہو چکے ہیں! یہ تباہی درحقیقت اُس زرعی معیشت و معاشرت کی تباہی ہے جسے اِس مقام تک پہنچنے میں مہینے سال نہیں بلکہ دہائیاں لگی تھیں اور سب کچھ آن کی آن میں سیلاب بہا کر لے گیا۔ توجہ طلب ہے کہ سیلاب کی وجہ سے بہت سے لوگ خط ِغربت سے نیچے جا چکے ہیں۔ یہ طے کرنا مشکل ہے کہ اِنہیں غربت سے اٹھنے میں کتنا وقت لگے گا۔ ایک دوسرے سے جڑے نقصانات جیسا کہ سست معاشی سرگرمی اور ضروریات زندگی کی لاگت میں اضافے سے سیلاب متاثرین کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان اس سے قبل موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ممکنہ اقتصادی اور مالیاتی اثرات (نقصانات) کو اُجاگر کر چکی ہے۔ زرعی نقصانات مینوفیکچرنگ اور خدمات کے شعبے کو متاثر کر رہے ہیں‘ حالیہ مالیاتی استحکام سے متعلق ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ ”نظام کے لحاظ سے اہم مالیاتی اداروں پر تناؤ یا چھوٹے اداروں پر باہمی تناؤ پورے مالیاتی نظام کو مفلوج کر سکتا ہے۔“ سیلاب ہو یا مہنگائی‘ کم آمدنی رکھنے والے طبقات سب سے پہلے متاثر ہوتے ہیں۔ چھوٹے پیمانے پر گھریلو یا کاٹیج صنعتوں کا بہت زیادہ انحصار زرعی شعبے پر ہے اور جب زراعت کا خسارہ ہوتا ہے تو اِس وابستہ کئی غیر رسمی شعبے کے کارکنوں کی روٹی روزی بھی متاثر ہوتی ہے۔ حالیہ سیلابوں نے قومی و صوبائی فیصلہ پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات اور نقصانات کا درست اندازہ لگانے کے لئے اُن علاقوں تک رسائی حاصل کریں جو تاحال ناقابل رسائی ہیں اور جن سے متعلق نقصانات کا تخمینہ محض اندازوں پر مبنی ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ’یونیسیف‘ کے ابتدائی اندازوں کے مطابق تقریباً تیس لاکھ بچے سیلاب سے متاثر ہیں اور اقوام متحدہ ہی کے مرتب کردہ تخمینہ جات میں اِس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ 16 لاکھ نوجوان خواتین اور ایک لاکھ تیس ہزار سے زائد شادی شدہ خواتین کو علاج معالجے یا فوری طبی نگہداشت کی ضرورت ہے۔ سیلاب اور بارش کے بعد‘ امدادی کارکنوں کو تاحال کئی علاقوں تک پہنچنے میں دشواری کا سامنا ہے۔ حکومتی اعدادوشمار کے مطابق‘ تین ماہ کے دوران‘ تین کروڑ تیس لاکھ متاثرین میں سے صرف پچانوے لاکھ متاثرہ افراد ہی تک پہنچا جا سکا ہے جبکہ 2 کروڑ سے زائد سیلاب متاثرین سے رابطہ ہونا ابھی باقی ہے۔ وہ سب کس حال میں ہیں اور اُن کی فوری یا دیگر ضروریات کیا ہیں‘ اِس حوالے سے کچھ بھی کہنا محض اندازوں کی بنیاد پر ہوگا۔ رواں ہفتے حکومت پاکستان نے قومی اقتصادی ترقی سے متعلق اپنے جاری کردہ تخمینہ جات پر نظرثانی کرتے ہوئے اِس میں سے نصف سے زیادہ کمی کر دی ہے اور یہی وہ مشکل وقت ہے جب پاکستان کے پاس وسائل تو ہیں لیکن وسائل کو متحرک کرنے میں مشکلات درپیش ہیں! اصلاحات ضروری ہیں ’این ڈی ایم اے‘ کو دریاؤں اور ڈیموں کے بارے میں جامع ڈائنامک ڈیٹا اکٹھا کرنیکی ضرورت ہے‘ نوآبادیاتی دور کی یادگار نہروں اور سیلاب سے بچاؤ کے نظام پر نظرثانی کی الگ سے ضرورت ہے‘ وقت کیساتھ سیلاب سے آبادیوں کو بچانے والا نکاسیئ آب کے نظام کی صلاحیت کم ہوئی ہے اور عالمی اداروں نے توجہ دلائی ہے کہ سندھ کے چار میں سے تین ایسے برساتی و سیلابی نالے غیر فعال ہیں۔ مزید برآں‘ پاکستان میں موسمیاتی پیشگوئی کرنے والا نظام کو بھی جدید بنانے کی ضرورت ہے۔