معدوم طبی سہولیات

کسی بھی قدرتی آفت یا غیرمتوقع حالات کی وجہ سے متاثر ہونے والوں میں بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہوتی ہیں جو ایسی آفت کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ حالیہ سیلاب کے دوران بھی یہی کچھ دیکھنے میں آیا جب چاروں صوبوں (بالترتیب خیبرپختونخوا‘ بلوچستان‘ پنجاب اور سندھ) میں ہر عمر کے بچوں اور خواتین نسبتاً زیادہ متاثر ہونے والے طبقات میں شامل تھے جبکہ اِن کی خصوصی ضروریات کے لئے دی جانے والی امداد بھی ناکافی تھی۔ اطلاعات کے مطابق گزشتہ دو ماہ کے دوران سیلاب زدگان کے لئے قائم کئے گئے ریلیف کیمپوں میں چار ہزار سے  بچے پیدا ہوئے! بے گھر افراد عموماً تاک میں بیٹھے کرداروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ بدحال وہ ہیں جو اس دنیا میں ایسے حالات میں آئے‘ جو غیر صحت بخش اور غیر محفوظ ہے۔ ماہرین ِصحت آنے والے چیلنجز کے بارے میں خبردار کر رہے ہیں کیونکہ  آنے والے دنوں میں بھی یہی مسئلہ درپیش ہوگا ور بچے مناسب دیکھ بھال کے بغیر یا علاج معالجے کی معیاری سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے صحت کے مسائل یا ناکافی خوراک کی وجہ سے متاثر ہوں گے۔ ریلیف کیمپوں کے رہنے والوں کے لئے موسم سرما وقت سے پہلے ہی شروع ہو گیا تھا کیونکہ اُن کے پاس گرم خیمے‘ کپڑے اور کمبل‘ شالیں یا رضائیاں نہیں ہیں اُور شاید ہی کوئی ایسی خیمہ بستی ہو جہاں ماؤں اور نومولود بچوں کو موسمیاتی اثرات سے محفوظ گرم پناہ گاہ فراہم کی جا سکے۔ المیہ ہے کہ زیادہ تر سیلاب زدگان بیمار ہیں اور وہ جسمانی طور پر لاغر ہیں۔ اِن میں بڑی تعداد اُن دیہی خواتین کی ہے جنہوں نے اِس سے قبل زرعی معیشت و معاشرت کا حصہ ہونے کی وجہ سے اِس قسم کی بھوک و افلاس (غذائی قلت) کبھی نہیں دیکھی۔ غذائیت کی کمی کے ساتھ صحت کی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں‘ جو مختلف بیماریوں اور خرابیوں کا باعث بنتا ہے۔ سیلاب سے متاثرہ اضلاع سے آمدہ اطلاعات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ دودھ پلانے والی مزید چار ہزار مائیں ایسی ہیں جنہیں انفیکشن کا زیادہ خطرہ ہے اور اگر مجموعی نوزائیدہ اور شیر خوار بچوں کی بات کی جائے تو یہ ہزاروں میں ہے یقینا یہ تعداد ایسی خواتین اور بچوں کی تعداد اُن امدادی کیمپوں کے کوائف (سرکاری ڈیٹا بیس) میں شامل نہیں ہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تمام سیلاب متاثرین امدادی کیمپوں میں مقیم نہیں ہیں اور ایسی ہزاروں خواتین و بچوں کو فوری طبی و خوردنی اجناس اور ملبوسات کی صورت امداد کی ضرورت ہے۔ محفوظ صحت ہر عورت کا حق ہے اور کسی بھی مہذب ملک میں حکومت کا فرض ہے کہ وہ تمام ماؤں اور بچوں کو قبل از پیدائش اور بعد از پیدائش طبی دیکھ بھال فراہم  کرے۔ فوری امداد کے لئے مناسب سہولیات اور آپریشن تھیٹرز کے علاوہ بچوں اور ماؤں میں غذائی قلت کو ختم کرنے یا اِس غذائی قلت کے اثرات کم کرنے کے لئے منصوبہ بندی کی بھی ضرورت ہے۔ سیلاب زدہ علاقوں میں مزید بنیادی صحت کے یونٹ کام نہیں کر رہے کیونکہ ان میں سے زیادہ سیلاب سے خستہ حال ہیں یا پھر سیلاب کے ساتھ بہہ گئے ہیں۔ معدوم شدہ صحت کی سہولیات بحال ہونے میں مہینوں یا برس لگ سکتے ہیں۔ اس دوران اِن تباہ حال زندگیوں کو خالصتاً انسانی ہمدردی اور رضائے الٰہی کی نیت سے بصورت ِخوراک‘ ادویات اور گرم ملبوسات مدد‘ سہارے اور بحالی کی ضرورت ہے۔