یہاں ہر ہال کا ایک حال ہے۔پھر وہ حال ہر ہال کاالگ الگ حال ہے۔شادی ہالوں کی انڈسٹری کا کاروبار کورونا کی وبا میں مخدوش ہو چکا تھا۔کورونا کی ٹھنڈی آگ دھیمی ہوئی تو شادی ہالوں کے دروازے وا گذار کر دیئے گئے اور ساتھ کرائے بھی بڑھا دئیے گئے کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ ہال کا کرایہ پہنچ سے دور بھی پہنچا دیں تو شہری وہاں بھی پہنچ کر ہال کو دو ہفتہ پہلے ہی بکنگ کروا کے گرفت میں لے لیتے ہیں۔ پھرہمارے شہری بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ آج کل کوئی شادی ہال ہو کسی ہفتہ بھی خالی نہیں جائے گا۔اگر روز نہیں تو ہفتہ میں ایک دن بھی اگر بکنگ پر چل نکلے تو اپنے پیسے پورے کرلیتا ہے۔کیوں نہ کرے گا۔ا س لئے کہ ہفتہ اتوار تو ہیں اس کے علاوہ منگل بدھ بھی بعض طبقوں کی چھٹی ہوتی ہے اوروہ انھی دنوں شادی کی ڈھولک ٹھنکنے کو ترجیح دیتے ہیں۔پھر جمعہ کو بھی اکثروں کی چھٹی ہوتی ہے۔ پھرایک دن میں دو بار یعنی دوپہر اور شام شادی بیاہ کے نقارے ان ہالوں کے باہر بجری اور فرش پر بجتے ہیں۔بلکہ اگر صبح کے ناشتے کا رواج ہوتا تو ڈاکٹر کی دوا کی طرح صبح دوپہر شام تینوں ٹائم کی بکنگ موجود ہوتی۔شادی ہال کے لئے جو چیز ضروری ہے وہ زیادہ سے زیادہ بڑی جگہ ہے۔پہلے تو ہر ایک نے اپنا سا شادی ہال بنا لیاتھا۔جہاں باہر گیٹ کے پاس گاڑیاں کھڑی ہوتیں تو سڑک بند ہو جاتی۔ مگر جب سے انتظامیہ نے ڈنڈا اٹھایا کہ شادی ہال بنا نے کو شرائط دکھلائیں کہ شادی ہال کی چار دیواری میں کارپارکنگ کی اچھی خاصی بڑی جگہ ہونی چاہئے تب سے سڑکوں کے رش کو کچھ آرام ملا ہے۔ایک شادی ہال تو دیکھا کہ گاڑیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا ہے۔ہال انتظامیہ کسی گاڑی کو سڑک پر کھڑی کرنے کو منع کررہے تھے۔ کیونکہ ان پر اچانک چھاپا پڑ سکتا ہے۔سو ہال کی چار دیواری میں گاڑیوں کی بھرمار تھی اتنی کہ جو گاڑی کھڑی ہوگی وہ اس وقت تک یوٹرن نہیں کرسکتی کہ جب تلک
پیچھے کھڑی گاڑی بھی ریورس پر گیٹ سے باہر نہ نکلے۔ ہماری تو بائیک تھی مکھن میں سے بال کی طرح چپکے کھانا نوشِ جاں کر کے نکل آئے۔مگر گاڑیوں والوں کی حالتِ زارکے بارے میں ضرور سوچا کہ آخر یہ کیا کریں گے۔پوری پچا س گاڑیوں کی ریل سی بنی تھی اور بھلا ریل گاڑی کیسے یوٹرن والا موڑکاٹ سکتی ہے۔مقابلے کی فضا کا میں نے اس ل ئے کہا کہ ایک سے ایک بڑھ کر شادی ہال ہے تو مہنگے سے مہنگا اور خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔مگر شہری وہ ہال کرایہ پر لینے کو ہمہ وقت تیا ر ہیں۔کیونکہ مقابلہ ہے۔پھرعزیزوں رشتہ داروں میں بھی اپنی دھوم مچانا ہے۔پھر وہا ں کھانا بھی ہال کی عمارت کو دیکھ کر دیا گیا ہو تو یہ ایونٹ برسوں یاد رہتا ہے۔پھر شہریوں کا یہ ہے کہ اگر کھانا ان کی توقع کے مطابق نہ ہو تو ان کو برسوں یاد رہتا ہے فلاں کی شادی میں گئے تھے اور کھانے کامزا نہیں آیا۔بلکہ ایسے دل جلے بھی ہوتے ہیں کہ جن کو اس تقریب میں کھانے کے آئٹم بھی یاد ہوتے ہیں۔ہماری سوچ تھی کہ ایک شادی ہال بنائیں مگر جب اپنے کرایے کے گھر کی طرف غور کیا تو سارا جذبہ صابن کے جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ مگر خدا نصیب کرے جن کے پاس کھلی زمینیں جائیدادیں ہیں وہ بہت آسانی سے شادی ہال کا کاروبار کرسکتے ہیں۔بعض کاروبار بڑے منافع بخش ہوتے ہیں۔جتنا بڑا پلاٹ ہو جتنے کنال کا ہو شادی ہال کے لئے عین مناسب ہوگا۔ بلکہ شہر کے اندرونی ماحول سے اگر تھوڑا دور بھی ہو تو کبھی ویران نہیں ہوگا۔کیونکہ یہ بھی ایک رواج چل نکلا ہے کہ شادی اندرون شہر کے تنگ و تاریک ماحول کے شادی ہالوں میں نہیں کریں گے۔شہر سے دورہو اور رات کو ہو کہ پہنچنے والے پہنچ بھی نہ سکیں مگر شادی کی دھوم دھام کی دھاک ان کے دلوں پر بیٹھ جائے جو ولیمہ یا بارات میں شرکت کریں اور واپس جاکر شادی ہال کی شان و شوکت اور شادی کے گھروالوں کی عظمت کے بارے میں اچھی رپورٹنگ کر سکیں۔یعنی اب اپنی خوشی سے زیادہ دوسروں کی خوشیوں کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے کہ لوگ جہاں زیادہ خوش ہوں اسی جگہ پر تقریب منعقد کرنی ہے چاہے اس کے لئے کتنی تکلیف اٹھانی پڑے۔