انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز (آئی آر ایس)پشاور کے زیر اہتمام پشاور یونیورسٹی کے پیوٹاہال میں کردارسازی بذریعہ تعلیم کے موضوع پر ایک قومی سیمینارکاانعقاد کیا گیا جس کے تین سیشن منعقد ہوئے،سیمینار سے پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسرڈاکٹر محمد ادریس،سیکرٹری ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ محمد داؤد خان،سیکرٹری محکمہ ابتدائی وثانوی تعلیم معتصم باللہ،آئی آر ایس کے چیئرمین ڈاکٹر محمد اقبال خلیل،کیریکٹر فاؤنڈیشن کے چیف ایگزیکٹیو محمود احمد،سلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور کے سابق ڈین سائنسزپروفیسر ڈاکٹر سید ظاہر شاہ، پروفیسر ڈاکٹر الطاف حسین لنگڑیال مرکزی صدر تنظیم اساتذہ پاکستان، سیکنڈری بورڈ پشاور کے سابق چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحمٰن قریشی،ہوم اکنامکس کالج پشاور یونیورسٹی کی پرنسپل ڈاکٹرشہناز خٹک، ڈاکٹر اقبال خان ایڈیشنل ڈائریکٹر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ،معروف مذہبی سکالراور تفہیم دین اکیڈمی کے ڈائریکٹرڈاکٹرمولانا محمد اسماعیل، اسلامیہ کالج یونیورسٹی شعبہ انگریزی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر عبدلسلام خالص،ڈاکٹر محمد ناصر اور ڈاکٹر ہما جاوید نے بھی خطاب کیا۔ سیمینار سے خطاب میں اکثر مقررین کااس بات پر اتفاق تھا کہ سیاسی افراتفری سے نظام ذندگی معطل ہے، مہنگائی اور بدامنی نے عام لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا رکھا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ،نوجوان نسل کی راہنمائی اور ان کی درست سمت میں تربیت کاکوئی میکنزم موجود نہیں ہے جس کے باعث معاشرے میں اخلاقی اقدار خطرے میں ہیں،،رہی سہی کسر سوشل میڈیا ایک بے لگام میڈیم کے طور پر اداکررہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معاشرے کی اس زبوں حالی کا اصل ذمہ دار ہمارا بوسیدہ تعلیمی نظام ہے۔وطن عزیز میں آج بھی کئی نظام ہائے تعلیم نافذ ہیں،جدید اور قدیم تعلیمی اداروں کے علاوہ پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر میں مختلف نظام موجود ہیں۔ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گاکہ جب تک ہم اپنے تعلیمی نظام اور نصاب کو قومی امنگوں اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کریں گے تب تک ملک میں سیاسی استحکام اور معاشی خود کفالت کی منزل کا حصول ناممکن ہے۔دوسری جانب کرداری سازی کے بغیر تعلیم وتربیت بے مقصد رہ جاتی ہے،اسلامی تعلیمات کے خطوط پر آراستہ یکساں نظام تعلیم اور نصاب وقت کی بنیادی ضرورت ہے،تعلیم میں کردارسازی پر خصوصی توجہ مرکوز کر کے ہی ہم من حیث القوم عدم برداشت،کرپشن اور معاشی پسماندگی جیسے مسائل پر قابو پاسکتے ہیں جن ممالک نے تعلیم وتحقیق کے ساتھ ساتھ کردار سازی کو ترجیح دی وہ ساری دنیا پر حکمرانی کررہے ہیں۔ہمارے ارباب اختیار کوکردارسازی کے عمل میں زبانی جمع خرچ کی بجائے عملی اقدامات تجویز کرنے چاہئیں۔اسی طرح قومی یکجہتی کے فروغ،نظریہ پاکستان کے تحفظ وترویج کے لئے بھی تمام صوبوں کے لئے نصاب کا یکساں ڈھانچہ تجویز کرنا ہوگاکیونکہ تعلیم کا بنیادی مقصد ہی کردار سازی ہے،یو رپ اور جاپان کی ترقی کے پیچھے انکے تعلیمی نظام میں کردار سازی پر توجہ مرکوزکرنا ہے۔اس بات میں کوئی دوآراء نہیں ہیں قومیں کردار اور لیبارٹریوں میں علم وتحقیق پر توجہ سے بنتی ہیں جب کہ ہماری اکثر لیبارٹریاں بند پڑی ہیں۔اسی طرح ہمیں اپنی لائبریریاں 24گھنٹے آباد کرنا ہوں گی۔نئی نسل کی کردار سازی کے لئے اس کا آغاز پرائمری سے کر نا ہوگا۔نصاب کو کردار سازی سے منسلک کرکے تمام مضامین میں کردارسازی سے متعلق مضامین کوشامل کرناچاہئے۔بچے کی کردار سازی میں اساتذہ،والدین اور معاشرہ سب کا یکساں مقام ہے۔ بچوں کی تربیت اور کردار سازی میں چھ عوامل اعتماد سازی، عزت و احترام، ذمہ داری،شفافیت،خیال رکھنا اورسوک سینس پر توجہ بہت ضروری ہے۔اساتذہ کرام کو بچوں کے لئے رول ماڈل بن کر درس و تدریس کا اہتمام کر نا ہوگا۔