وہ بھابھی اور نند تھیں۔دونوں اوپر والی منزل کے کمرے کی طرف بڑھیں۔کمرے کا دروازہ کھولا تو گیس کی بُو تھی۔ ایک نے کہا ہائے یہ تو گیس کی بُو ہے۔دوسری نے کہا ٹھہرو ٹھہرو میں لائٹ جلاتی ہوں۔مگر جب بجلی کے بٹن کو آن کیا تو بس ایک دھماکہ ہوا اور بھک سے کمرے کی لکڑیوں والی چھت اڑ گئی۔دونوں کی جان تو بچ گئی۔مگر دونوں بری طرح جل گئیں۔ایک کے ہاتھ کی انگلیاں بھی ٹیڑھی ہو گئیں جو دوبارہ سیدھی نہ ہو سکیں۔اس طرح کے کئی واقعات سردیوں کے دنوں میں پیش آ چکے ہیں۔میں گورنمنٹ کالج اوگی میں پڑھاتا تھا۔ ساتھ والی دیوار کے ساتھ وہاں صبح دم شور کی آوازیں آ رہی تھیں۔معلوم ہوا کہ رات کو میاں بیوی اور بچہ کوئلہ جلاکر سو گئے تھے۔مگر صبح سویرے ان کی آنکھ ہمیشہ کے لئے بند ہو گئی۔پھر ہمارے گورنمنٹ کا لج کے پروفیسر اور پیارے انسان سپورٹس انچارج مصباح گئے برسوں میں اپنی ٹیم لے کر ایبٹ آباد گئے پہنچے۔وہاں کے سرکاری کالج کے ہاسٹل میں رات کے لئے مقیم ہوئے۔ رات گیس خوب روشن تھی اسی خوش فہمی میں تین آدمی وہاں سوتے رہ گئے۔ صبح ان کو بیدار ہوتے ہوئے جب بہت دیرگذری تو کلاس فور کے ایک اہلکار نے ان کو اٹھانے کے لئے دروازہ کھڑکھڑایا۔ مگر اسے گیس کی بُو محسوس ہوئی۔ دروازہ دیر تک بجانے پربھی نہ کھلا تو انھوں نے مجبوراً دروازہ توڑا۔اندر پروفیسر صاحب نے رات کے کسی پہر دروازہ کھولنے کی کوشش کی تھی۔ مگر دماغ میں گیس چڑھ جانے سے وہ چکر کھا کر وہیں کرسی پر بیٹھ گئے۔پھروہ وہیں انتقال کر چکے تھے۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ دلھا دلہن بارات کے بعد گھرآئے تو کمرے کا ہیٹر جلا یا۔ پھر گیس بند کرنابھول گئے اور وہ ہمیشہ کے لئے وہیں سو گئے۔اس قسم کی خبریں ہر سردیوں میں سننے کو ملتی ہیں۔سوشل میڈیا پر دو ایک سال پہلے ایک مووی چلائی گئی جس میں بتلایا گیا کہ گھروالے مرد و خواتین اور بچے جیسے رات کو سوئے تھے ویسے کے ویسے سوئے ہیں اور جانے کس وقت سے ان کے جسموں میں جان باقی نہیں۔وہ بھی گیس کا والوبند کرنابھول گئے۔ ہرسال محکمہ سوئی گیس کی طرف سے وارننگ جاری ہوتی ہے کہ سردیاں ہیں اور گیس کے معاملے میں احتیاط کریں۔ پھر احتیاط خاص طور پراس ل ئے کہ کبھی گیس آتی ہے اور کبھی چلی جاتی ہے۔جلتی ہوئی گیس میں اگرآنکھ لگ گئی اور بعد میں گیس چلی گئی تو ظاہر ہے کہ اس کا انجام برا ہوا۔ کیونکہ جب ہیٹر اورچولھا بجھ جائے تو اس کے کچھ دورانیہ کے بعد گیس دوبارہ آجاتی ہے۔لیکن وہ کچی گیس ہوتی ہے جو جل نہیں رہی ہوتی۔ ایسے میں اگر گھر کے افراد سوتے ہوئے رہ گئے تو تو پھر آنکھ کھلنے کا امکان نہیں۔پھر معاملہ آج کل توکچھ زیادہ خطر ناک ہے۔ وہ اس لئے شہریوں نے گیس کی کٹ حاصل کر رکھی ہیں۔ وہ بزور گیس کھینچ کر مشین کے ذریعے ہیٹر اور چولھے جلاتے ہیں۔پھر بجلی کی لوڈ شیڈنگ بھی عروج پر ہے۔اگر مشین سے کھینچ تان کر گیس آ رہی ہے تو بجلی غائب ہونے پر گیس بجھ جائے گی۔ مگر جب لائٹ دوبارہ آئے گی تو مشین پھر سے چالو ہو جائے گی۔ ایسے میں بغیر جلے اور جلائے گیس بھی دستیاب ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ایسے میں بہت نقصان پہنچ سکتا ہے۔ گیس بھی کون سی ہوتی ہے اور بل کے لمبے لمبے کاغذ گھر کے دروازہ میں گرائے جاتے ہیں۔ پھر آج کل تو کہا جا رہاہے کہ گیس کے نرخ تین سو فیصد سے بھی زیادہ کریں گے۔ جس کا دو سو کابل آتا ہے سمجھو وہ تین ہزار دے گا۔ یہ ناروا ظلم ہوگا اور شہریوں نے سہنا ہے کہ۔نہ بجلی نہ ہی گیس جلے گی مہنگائی الگ ہوگی توہنڈیاچولھے پہ کیسی چڑھے گی۔اتنی گیس کہاں سے آئے کہ جس سے چولھے بھی جلیں اور پانی گرم کرنے کا بندوبست بھی ہو۔کہیں آنا جانا ہو تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔جولوگ گرم پانی کے عادی ہیں وہ تو ٹھنڈے پانی سے ہاتھ بھی نہیں دھو سکیں گے۔ ظاہر ہے کہ انھیں ٹھنڈے پانی سے نہاناہوگا۔مگریہ ہے کہ تھوڑی برداشت پیدا کی جائے اور پانی نیم گرم ہو تو کام چل جاتا ہے۔کراچی کے مہمان گرمیوں میں بھی پشاورآئیں توہمارے شہر کے نلکہ کے پانی تلے نہانا ان کے لئے بہت دشوار ہوتا ہے۔وہ پشاور میں ستمبر کے مہینے میں بھی سر پر ٹوپیاں اور ہاتھوں میں دستانے پہن کر گھومتے ہیں۔ان کو دیکھیں تو ہنسی آتی ہے۔وہ پانی گرم کروا کے نہاتے ہیں۔یہ برداشت او رعادی ہونے کی بات ہے۔اوپرپہاڑی علاقوں میں لوگ ٹھنڈے پانی سے نہاتے ہیں۔ایسے کہ ان کو نہاکر باہر نکل آنے کے بعد میدانی علاقوں کے مہمان حیرت سے دیکھتے ہیں۔ہمارے ایک عزیز کا تبادلہ ایبٹ آباد میں ہوا تھا۔ وہ وہاں کی سردی کے عادی ہو چکے تھے۔جب پشاور آئے تو ہمیں گیس کے چولھے پر ہاتھ تاپتے ہوئے دیکھا۔کہنے لگے یار اب اتنی بھی سردی نہیں۔کھولو کھڑکیاں دروازے۔خیر جو بھی ہو آج کل گیس کی کنجی کا خیال کریں۔ خوب دیکھ داکھ کر تسلی کر کے سوئیں۔ گھروں میں بعض شرارتی بچے ہوتے ہیں۔ وہ آپ کے سوجانے کے بعد بھی گیس کا والو آن کرسکتے ہیں۔لہٰذا گیس کی کنجی دیوار پراوپرکر کے لگائیں۔ بچوں کو تربیت دیں اور گیس بارے میں آگاہی دلوائیں۔