بحث و تکرار 

بحث و تکرار کے عنوان پر پطرس بخا ری کا انشائیہ اپنی مثال آپ ہے اس کا کوئی موازنہ یا مقا بلہ نہیں ہو سکتا ہمارے ہاں الیکٹرا نک میڈیا میں بڑے لو گوں کو بلا کر جو بحث و تکر ار دکھا ئی اور سنا ئی جا تی ہے اس کا اپنا مزہ ہے اس بحث و تکرار میں ہم نے گھو نسے اور تھپڑ بھی چلا تے ہوئے دیکھے، بوٹ میزوں پر سجا تے اور قسم اٹھاتے بھی دیکھے دلچسپ صورت حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کوئی بڑا آدمی اپنا موقف بدل کر معا فی مانگنے لگتا ہے یا کوئی بڑا آدمی مجلس سے اُٹھ کر مجلس پر دو حرف بھیجتے ہوئے با ہر نکل جا تا ہے بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ یہ بڑے لو گ نہیں کسی کچی دیوار کے سایے میں مٹی کے گھر وندوں سے کھیلتے ہوئے معصوم بچے ہیں ابھی غصہ ہو گئے تھوڑی دیر میں واپس آکر اپنے گھروندوں سے پہلے کی طرح کھیلنے لگیں گے اور بسا اوقات ایسا ہی ہو تا ہے بات وطن کی ہو‘ قوم کی ہو‘ سیاست کی ہو‘ معیشت کی‘آمریت کی ہو یا جمہوریت کی ہو‘ ہر بات کے بیسیوں پہلو اور بیسیوں رُخ ہو سکتے ہیں ہمارے بڑوں کو کسی بھی پہلو اور کسی رخ پر بات کر تے ہوئے دیکھنا خدا دشمن کو بھی نصیب کرے پتہ نہیں کس نے ہمارے بڑوں کے دل میں یہ بات ڈال دی ہے کہ اختلاف رائے دشمنی ہے‘تمہاری رائے سے جو اختلاف کر تا ہے وہ تمہارا پکا دشمن ہے حا لا نکہ ہمارے مقا بلے میں مغر بی دنیا نے ایک مقولے کو اپنا منشور بنا یا ہے مقولہ یہ ہے کہ ”تمہار ی رائے سے اختلا ف رکھتا ہو ں تا ہم تمہاری رائے کے اظہار کا حق دلا نے کیلئے اپنی جا ن بھی لڑا دونگا“ مغرب میں اظہار رائے کی آزادی کی حدود متعین کی گئی ہیں اس عنوان پر بھی ایک مشہور مقولہ دہرا یا جا تا ہے وہ کہتے ہیں کہ ”تمہاری آزادی وہاں تک ہے جہاں میری نا ک شروع ہو تی ہے“ یعنی اظہار رائے کی آزادی کا فائدہ اٹھا تے ہوئے تم میری ذات پر کیچڑ نہیں اچھا ل سکتے‘ میری شخصیت کو،میری ذات کو اور میرے کنبے کو زیر بحث نہیں لا سکتے‘ برطا نیہ کے ایک مشہور وزیر اعظم ونسٹن چر چل گذ رے ہیں، ان کا مخا لف سیا ستدان دارلعوام میں کھڑے ہو کر اُس پر ذاتی حملے کرتا تھا مگر وہ جوا ب نہیں دیتا تھا ایک دن ایک صحافی نے سوال کیا کہ آپ کو ئی جواب کیوں نہیں دیتے؟ چرچل نے کہا ”شاید میری تر بیت اُن سے بہتر ہوئی ہے“ بحث و تکرار میں نفس مضمون پر گرفت اور اپنے نقطہ نظر کی مبادیات کو سامنے رکھنا ضروری ہے اس کے لئے لٹریچر کا مطا لعہ کر کے تیاری کرنا لا زم ہے اگر تیا ری نہیں ہو ئی تو آدمی بات کہتے ہوئے بھٹک جا ئیگا مشہور ڈرامہ نگار، مکا لمہ نگار اور مقرر جار ج برنارڈ شاہ سے پوچھا گیا کہ تمہیں ایک گھنٹہ تقریر کے لئے کتنی تیاری کرنی پڑ تی ہے؟ انہوں نے کہا میں کوئی تیاری نہیں کر تا کیونکہ ایک گھنٹہ کی تقریر میں الم غلم کچھ بھی کہا جا سکتا ہے، البتہ مجھے 5منٹ بولنے کے لئے کہا جا ئے تو میں 3گھنٹے تیاری کر کے آتا ہوں کیونکہ 5منٹ کی گفتگو میں ہر لفظ کو نپا  تلا اور جا نچا  پر کھا ہوا ہو نا چاہئے الیکٹرا نک میڈیا میں جو بحث و تکرار چلتی ہے اس میں ہر ایک کو دو منٹ کا وقت ملتا ہے، اس کے بعد اگلی بات کی باری آتی ہے پھر دو منٹ ملتے ہیں اس طرح ایک گھنٹے کی گپ شپ میں کل ملا کر 10یا 12منٹ ہر ایک کو ملتے ہیں تیاری کے ساتھ آنے والا جم کر بولتا ہے کوئی غیر ضروری لفظ اپنی زبان پر نہیں لا تا جبکہ جس کی تیاری نہیں ہو تی وہ الم غلم بولتا رہتا ہے اُس کی بات کا سر پیر نہیں ہو تا اور یہی چیز سنجیدہ ناظرین کو بیزار کر دیتی ہے بحث و تکرار کی حدود کا تعین ہونا چاہئے۔