پاکستان میں آئندہ عام انتخابات مقررہ وقت (یعنی آئینی مدت کی تکمیل) پر ہوں تو اِن کا انعقاد ’ماہ اگست سے اکتوبر دوہزارتیئس‘ کے درمیانی عرصے میں ہوگا جبکہ ملک کے بالائی علاقوں میں موسم سرما کے آغاز اور برفباری کی وجہ سے انتخابات آسان نہیں ہوں گے کسی بھی سال کے پانچ مہینوں (مارچ سے جولائی) کو عام انتخابات کے لئے بہترین (موافق) سمجھا جاتا ہے تاہم فی الوقت صرف مقررہ وقت‘ تاخیر یا قبل از وقت عام انتخابات ہی زیربحث موضوع نہیں بلکہ عوامی و سماجی حلقوں میں اِنتخابی عمل (حق رائے دہی) کی شفافیت بھی پیش ِنظر نکتہ ہے جس کیلئے ’الیکٹرانک ووٹنگ مشینز (EVMs)‘ کا استعمال شفافیت سے جڑے بہت سارے پہلوؤں کا جواب ہو سکتا ہے اور اِس معاملے کو سیاسی مفادات کی بجائے قومی مفاد کے پہلو سے بھی دیکھنا چاہئے‘ قومی صورتحال یہ ہے کہ آئندہ عام انتخابات سے قبل صوبائی سطح پر ’بلدیاتی انتخابات‘ کا مرحلہ درپیش ہے جو قومی انتخابات کے انعقاد جیسا یکساں اہم معاملہ ہے اور اگر الیکشن کمیشن صوبائی سطح پر بلدیاتی انتخابات (جن کا اِنعقاد چاروں صوبوں میں الگ الگ تاریخوں پر ہوتا ہے) میں ’اِی وی ایمز‘ سے استفادہ کرتی ہے تو قومی انتخابات میں بھی اِن مشینوں کے استعمال کی راہ ہموار ہو جائیگی اِس سلسلے میں صوبہ پنجاب کی جانب سے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ آئندہ بلدیاتی انتخابات چند حلقوں میں تجرباتی بنیادوں پر نہیں بلکہ مکمل طور پر الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے کروائے جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے اِس بارے میں جواباً قانون سازی کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے‘الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں انتخابی عمل پر بعدازانتخابات ہونیوالے بہت سارے اعتراضات کا جواب ہو سکتا ہے لیکن اعتراضات کا یہ ممکنہ حل ’ناممکن‘ دکھائی دے رہا ہے کیونکہ ’قانون سازی‘ تحریراً یا زبانی کلامی جس قدر آسان دکھائی و سنائی دیتی ہے اُس سے کہیں زیادہ پیچیدہ عمل ہے بالخصوص ایک ایسے ماحول میں جہاں سیاسی جماعتوں کے کثیرالجہتی مفادات اِس قسم کی کسی بھی کوشش کے آڑے آ رہے ہیں دوسری اہم بات سیاسی جماعتوں کی ا کثریت ’الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں‘ کی مخالفت کر رہی ہے بالخصوص وفاقی حکمراں اتحاد (پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ) کا حصہ جماعتوں میں اِس قسم کی قانون سازی کیلئے اتفاق رائے پیدا کرنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے‘سال دوہزاردس میں متعارف ہوئی ’اٹھارہویں آئینی ترمیم‘ کی وجہ سے صوبوں کو ملنے والے اختیارات میں ایسی قانون سازی کا حق بھی شامل ہے‘ اِسی حق کو مدنظر رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پنجاب حکومت سے صوبے میں آئندہ بلدیاتی انتخابات کیلئے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال کے حوالے سے آئینی ترمیم کا کہا ہے‘الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب کے چیف سیکرٹری‘ پنجاب لوکل گورنمنٹ اور کمیونٹی ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے سیکرٹری کو خطوط ارسال کئے گئے ہیں کہ اگر قانون سازی کے ذریعے آئندہ عام انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال کی راہ میں حائل آئینی رکاوٹیں دور کر دی جاتی ہیں تو پنجاب (صوبے بھر میں) کیلئے قریب 2 لاکھ 5 ہزار الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی ضرورت ہوگی‘ اِن مشینوں کو مقامی طور پر تیار کروایا جائیگا علاوہ
ازیں الیکشن کمیشن کی جانب سے بلدیاتی انتخابات کو ’پیچیدہ مشق‘ بھی قرار دیا گیا ہے کیونکہ اِس میں ایک سے زیادہ بیلٹس (ووٹوں) کو سنبھالنے کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ زیادہ تر مشینیں صرف ایک بیلٹ (ووٹ کی پرچی) کو ہینڈل کرسکتی ہیں؛اگر پنجاب میں بلدیاتی انتخابات روایتی انداز سے ہٹ کر کروائے جاتے ہیں تو اِنکی تیاری کیلئے الیکشن کمیشن کو چار ماہ کی آئینی مدت میں ’اِی وی ایمز‘ کا بندوبست کرنا پڑیگا قابل ذکر ہے کہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے گزشتہ ماہ ایک سماعت کے دوران پنجاب حکومت کے ’ای وی ایمز‘ کے ذریعے بلدیاتی انتخابات کرانے کے اقدام کو
”پہلے سے تاخیر کا شکار انتخابی مشق کو مزید تاخیر کا مؤجب قرار دیتے ہوئے اِسے ایک ’تاخیری حربہ‘ قرار دیا تھا‘آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے دوران جس سیاسی جماعت کی اکثریت سامنے آئیگی‘ اُس کیلئے زیادہ آسان ہوگا کہ وہ آئندہ عام انتخابات میں بھی اپنی یہ برتری برقرار رکھے اور نیشنل اسمبلی کی اکثریتی نشستیں حاصل کرلے گزشتہ ماہ کے دوران پنجاب حکومت نے صوبے میں بلدیاتی انتخابات ’نئے لوکل گورنمنٹ ایکٹ‘ کے تحت کرانے کا فیصلہ کیا تھا ”پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2022ء“ کے مطابق راولپنڈی سمیت تمام ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز میں میٹروپولیٹن کارپوریشنز اور ڈسٹرکٹ کونسل کے میئر کا انتخاب براہ راست ووٹنگ سے ہوگا باون فیصد نشستیں منتخب میئر کی صوابدید پر ہوں گی اور یہ 48 فیصد متناسب نمائندگی کے لحاظ سے مختص کی جائینگی جو کہ ہر پارٹی کو ملنے
والے ووٹوں کی تعداد پر منحصر ہونگی‘ کسی سیاسی جماعت کی عوام میں مقبولیت کی بنیاد پر بلدیاتی انتخابات کے دوران بلدیاتی سربراہ کا براہ راست انتخاب کیا جائیگا سیاسی حلقوں کے مطابق موجودہ حالات میں اگر بلدیاتی انتخابات ہوئے تو اِس کا سب سے زیادہ فائدہ ’تحریک انصاف‘ کو ہو سکتا ہے‘ نئے بلدیاتی قانون کے تحت گجرات میں میٹروپولیٹن کارپوریشن ضلع کونسلوں کے علاوہ دس ڈویژنل ہیڈکوارٹرز اور ایک غیر ڈویژنل ہیڈکوارٹر کی نگران تنظیم کے طور پر کام کریگی تاہم میونسپل کمیٹیاں اور میونسپل کارپوریشنز ختم کر دی گئی ہیں‘ضلع کونسل کے علاوہ ہر تحصیل کی سطح پر ایک یونٹ ہوگا‘ مقامی سیاست پارٹی کی بنیاد پر ہوگی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے میئر اور ڈسٹرکٹ کونسل کے میئر ماضی کے مقابلے میں نہ صرف زیادہ بااختیار ہونگے بلکہ انکے خلاف تحریک ِعدم اعتماد بھی پیش نہیں کی جا سکے گی جبکہ سیاسی جماعتوں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ اگر کوئی بلدیاتی نمائندہ جماعتی فیصلوں یا جماعتی نظم و ضبط سے انحراف کرتا ہے تو ایسی صورت میں اُسکی رکنیت کالعدم قرار دی جا سکے گی‘ راولپنڈی میٹروپولیٹن کارپوریشن میں ستر یونین کونسلیں ہونگی اراکین اسمبلی اور متعدد سیاسی شخصیات نے پنجاب کے اِس نئے لوکل گورنمنٹ قانون کی مخالفت کرتے ہوئے تجویز کر رکھا ہے کہ میئر کا انتخاب براہ راست کی بجائے بالواسطہ طور پر ہونا چاہئے الیکشن کمیشن کا خیال ہے کہ پنجاب حکومت کا ’الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں‘ کے استعمال پر اصرار زمینی حقائق کے مطابق نہیں اور اِس سے نہ صرف انتظامی مسائل بلکہ بڑی مالیاتی ضروریات بھی پیدا ہوں گی جبکہ پنجاب کے محکمہئ بلدیات نے الیکشن کمیشن کی تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے اِسکی توثیق کر رکھی ہے تاہم پنجاب کے آئندہ بلدیاتی انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال ہوگا یا نہیں‘ اِس بارے میں مسودہئ قانون وزیر اعلیٰ پنجاب کو ارسال کیا جائیگا جس کے بعد ’ای وی ایمز انتخابی قانون (ووٹنگ بل)‘ پنجاب اسمبلی میں پیش کیا جائیگا پنجاب کی حکمراں اتحادی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ وفاق کے زیراثر ’الیکشن کمیشن‘ اِس وجہ سے ’الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں‘ کے ذریعے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد نہیں چاہتا کیونکہ ایسی صورت میں قومی انتخابات میں بھی الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال کرنا پڑیگا جس سے انتخابی دھاندلی اور الیکشن کمیشن کے بعدازانتخابات (پوسٹ الیکشنز) نتائج میں ردوبدل کے امکانات کم ہو جائینگے ذہن نشین رہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں اور اِنکا استعمال 1960ء کی دہائی میں امریکہ کے بلدیاتی انتخابات سے متعارف ہوا تھا جبکہ اِسکا بڑے پیمانے پر استعمال 1964ء کے امریکی صدارتی انتخابات کے موقع پر کیاگیا تھا؛ بھارت میں 2004ء سے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال ہو رہا ہے‘ اِن 10 لاکھ مشینوں کی مدد سے 38 کروڑ (380 ملین) ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں تاہم خاص بات یہ ہے کہ بھارت میں زیراستعمال الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں مقامی سطح پر بھارت الیکٹرانک لمٹیڈ اور الیکٹرانک کارپوریشن آف انڈیا لمٹیڈ‘ تیار کرتی ہیں اور ایک عدالتی فیصلے کے مطابق الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی کل تعداد کے 20 فیصد سے حاصل ہونیوالے نتائج کی گنتی ’کاغذی پرچیوں (ووٹر ویریفائیڈ پیپر آڈٹ ٹرائل)‘ سے بھی کیا جاتا ہے۔