آج کل کتاب کی تقریبِ رونمائی میں کسی کواپنی نئی شائع شدہ کتاب ہاتھ میں تحفہ کے طور پر تھما دو۔پھر اس کتاب کے پہلے خالی صفحے پر ان کا نام بھی لکھ دو۔اس کے باوجود بھی اس نے کتاب نہیں پڑھنی۔شکریہ ادا ہوگا اور فوٹو سیشن ہوگا۔مگر وہ صاحبِ ذوق شخصیت ہوئی تو اس کتاب کو وہیں تقریب میں کرسی پر براجمان ہوتے ہوئے پڑھنا شروع کر دے گا جستہ جستہ دیکھے گا اور گھرجا کر فوراً سے پہلے جب تلک کہ کھانا یا چائے تیار ہو کر سامنے نہ آئے وہ اس کتاب کو کسی نہ کسی طریقے سے پڑھ ہی لے گا۔ مگر ہمارے ہاں صاحبان صاحبِ ذوق بہت کم ہیں۔ان کو کتاب دینا کتاب ضائع کرنے والی بات ہے۔کیونکہ وہ جائیں گے اور گھر میں کتاب کو ایک طرف پھینک دیں گے۔پھر اس کے بعد الماری کی زینت بنا دیں گے۔ بجائے کتاب اٹھانے کے وہ سائیڈ ٹیبل پر رکھا موبائل اٹھا لیں گے۔پھر مہینہ ڈیڑ ھ گزرے گا تو وہی کتاب کریم پورہ بازار میں اولڈبک ہاؤس والے کسی کتاب گھرمیں برائے فروخت پڑی ہوگی‘میں نے اپنی نئی کتاب ایک صاحب کو تحفہ میں دی اس امید کے ساتھ کہ وہ کتاب پڑھ کر فون پر شاباشی دیں گے‘ وہ صاحب بھر پور ذوق کے مالک بھی تھے لیکن بات یہ ہے کہ اگر پسند نہیں آئی تو شوکیس میں قید کر کے رکھ لیتے۔بیٹھک کا حسن کتابوں کی وجہ سے بھی آج کل زیادہ محسوس ہوتاہے۔پھر یہ گھر والے کی تعریف والی بات ہے۔ بھلے ان میں سے صاحبِ خانہ نے ایک بھی نہ پڑھی ہو۔پھر اس لئے بھی رکھ لیتے کہ آئندہ ان کی اپنی نسل میں سے کسی کو شاید کتاب کا شوق پیدا ہوتا تو والد کی یادگار کتاب نکال کر پڑھ لیتے۔مگر اس کو دوسری کتابوں کے ساتھ پرانی کتابوں کی دکان پرلے جاکر بیچنے کی کیا ضرورت تھی۔ میں کہتا ہوں جولوگ اپنے گھرکی کتابیں نہیں پڑھتے وہ اولڈ بک ہاؤس میں بیچ دیں۔اگر نہیں تو باذوق یاروں دوستوں کو تحفہ میں دے دیں پھر اگر یہ مشورہ بھی پسند نہ ہو تو ایک اور کام آسانی سے کیا جا سکتا ہے کہ ان کتابوں کو بجائے بیچ کر پیسے کھرے کرنے کے شہر بھر کی سکولوں کالجوں کی لائبریریوں میں ان کے رجسٹر میں انٹری کروا کے حوالے کر آئیں۔کیونکہ لائبریری میں جو بھی آتا ہے وہ کتاب پڑھنے او رگھرلے کر جانے کیلئے آتا ہے کیونکہ طالب علم اور شوقین حضرات ریسرچ کیلئے کتابیں پڑھتے ہیں۔ میری کتاب کو کتابوں کی پرانی کتاب مارکیٹ میں بیچ کر آنیوالے صاحب پر مجھے ہنسی بھی آئی اور افسوس بھی ہوا۔کیونکہ ان کو یہ چاہئے تھا کہ وہ اپنا نام تو چھپا لیتے۔بھلے میرا دستخط موجودرہتا۔پھر ایسا بھی تھا کہ وہ صفحہ ہی اُڑا دیتے۔مگر انھوں نے ایسا کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔اس سے لگتا تھا کہ اس کتاب کے ساتھ تھوک کے حساب اور کتابیں بھی یہاں فروخت کی گئی ہیں۔کیونکہ ایک کتاب کے کتنے پیسے ملیں گے جو وہ وہاں چل کر آئے ہوں۔قرینِ قیاس یہ ہے کہ ان کے افرادِ خانہ میں سے ان صاحب کے جیتے جی کسی نے ان کی کتابوں کو ردی اور بیکارکی چیز سمجھ وہاں فروخت کر دیاتھا؛میں جب وہا ں کوئی اچھی کتاب یا کتابیں تلاش کر رہا تھا تو میں نے اپنی یہی کتاب وہاں سے خرید لی‘میں نے وہ کتابوں کے کسی مقابلے میں بھیجنا تھیں مگر میری کتاب کو انعام نہ ملا تو مجھے سمجھ آیا کہ شاید کتاب واقعی اس قابل نہ تھی کہ اس کو پڑھا جاتا اور وہ انعام کے قابل سمجھی جاتی۔کورس کی کتابیں تو پڑھی جاتی ہیں۔ کیونکہ طالب علموں کو ان سے کام ہوتا ہے‘سو میرا بھی اب اسی طرف دھیان گیا ہے کہ کورس کی کتاب کی کوئی گائیڈ لکھوں‘پبلشر پیسے بھی دے گانہ ہوا خود بیچیں گے سو اس پر انحصار ہے‘آگے دیکھیں کیا ہوتا ہے۔میں تو کہتا ہوں اپنی شائع شدہ شاعری یانثر کی نئی کتاب کسی کو دیں اور ساتھ پانچ ہزار روپیہ نقد بھی دیں کہ اس کتاب کو گھرجا کرضرورپڑھنا ہے۔مگر اگلا وہ رقم تو جیب میں ہڑپ کر لے گا اور کتاب کو پورا چھوڑ ایک دو صفحے بھی نہیں پڑھے گا‘ اچھی موویاں موبائل میں مل جاتی ہیں تو کسی کو کیا پڑی کہ موبائل کو چھوڑ کر کتاب اٹھائے۔