معاشرتی سائنس کی شاخ علم شماریات (اعداد وشمار) کے ذریعے کسی بھی برسرزمین حقیقت کو سمجھنا اور اُس سے متعلق فیصلہ سازی کا عمل مؤثر و پائیدار بنایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے ’شماریاتی حقائق‘ سے متعلق جاری ہونے والے تازہ ترین تفصیلات سے معلوم ہوا ہے کہ ’انسانی ترقی‘ خاطرخواہ نہیں ہو رہی اور اِس کے حوالے سے پاکستان کی عالمی درجہ بندی گراوٹ کا شکار ہے۔ یہ شماریاتی حقائق صرف بین الاقوامی تنظیموں ہی کی طرف سے جاری نہیں ہوئے بلکہ خود حکومتی ادارے بھی اِن پر مہر تصدیق ثبت کر رہے ہیں۔سال دوہزار اکیس بائیس سے متعلق ’عالمی ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس‘ جاری کی گئی ہے جس میں پاکستان کی درجہ بندی بہتر ہونے کی بجائے گر گئی ہے۔ یہ عالمی درجہ بندی کسی ملک کے ہاں معیار زندگی‘ صحت و تعلیم کے معیار و مقدار کی پیمائش کرتے ہوئے مرتب کی جاتی ہے۔ حالیہ پاکستان ڈیموگرافک سروے کے مطابق‘ جسے پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس نے پندرہ نومبر کے روز جاری کیا ہے۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جس میں وسائل کی کمی ہے۔ سال 2019ء میں کی گئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں ہر بارہ سو مریضوں کے لئے صرف ایک ڈاکٹر ہے۔ ہسپتال میں بستروں کی کمی ہے۔ ادویات کی عدم دستیابی اور ادویات عام آدمی کی قوت خرید سے ہر دن مہنگی ہو رہی ہیں لیکن یہ مسائل خاطرخواہ حکومتی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ تشویشناک ہے کہ پاکستان میں صحت عامہ کی دیکھ بھال کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے اور اِس بات کا ثبوت یہ ہے کہ مالی سال دوہزاربائیس تیئس کے وفاقی بجٹ میں وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز کے لئے صرف اُنیس ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ مذکورہ سروے میں کچھ اچھی خبریں بھی سامنے آئی ہیں جیسا کہ سال دوہزاراٹھارہ اور سال دوہزاربیس کے درمیان ملک میں شیر خوار بچوں کی شرح اموات 75.2 سے کم ہو کر 56 ہو گئی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ زیادہ تر خواتین بچے کی پیدائش کے لئے سرکاری سہولیات یا گھروں کے بجائے نجی ہسپتالوں اور کلینکوں کا انتخاب کرتی ہیں۔ سروے کے دیگر اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران کم از کم ساڑھے چھ لاکھ افراد امراض قلب کی وجہ سے ہلاک ہوئے‘ جو کہ ملک میں اموات کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ڈینگی کے نتیجے میں 75ہزار سے زائد اموات ہوئیں جبکہ فالج کی وجہ سے بھی جانوں کا ضیاع ہوا جبکہ کئی صورتوں میں یہ ایک قابل علاج مرض ہے۔ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بائیس کروڑ (220ملین) کی کل آبادی والے پاکستان میں ذہنی امراض میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور قومی ذہنی صحت تیزی سے بگڑ رہی ہے جبکہ نفسیاتی معالجین کی کمی ہے اور پورے ملک میں مستند و تجربہ کار نفسیاتی معالجین کی تعداد پانچ سو سے کم بتائی گئی ہے جبکہ سروے میں تعلیم جیسے اہم شعبے کا بھی جائزہ لیا گیا ہے جس سے متعلق اعدادوشمار سے قومی سطح پر معیاری تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے اور فیصلہ سازوں کو قومی صحت پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اعداد و شمار حل نہیں ہوتے لیکن اِنہیں مدنظر رکھتے ہوئے قومی حکمت عملیاں مرتب یا قومی حکمت عملیوں پر نظرثانی کی جا سکتی ہے اور اِنہی کی بدولت کثیرالجہتی مسائل کا حل بھی تلاش کیا جا سکتا ہے‘ جو وقت کی ضرورت (حالات کا تقاضا) ہے۔