پھرکہتے ہیں کہ عوام غریب ہیں۔ ہمارے عوام اگر غریب ہوتے تو آج کل شادی بیاہوں میں قسم قسم کے کھانے جوپیش کئے جاتے ہیں۔پھرجس جس طرح کے شادی ہال کرایے پر لئے جاتے ہیں۔اس سے تو کچھ اور گمان ہوتا ہے۔وہ یہ کہ ہاں حکومت ہماری ضرور غریب ہے۔مگر ہمارے عوام مالدا ر ہیں۔شادیوں کے نام پر کس طرح سے اخراجات کئے جاتے ہیں۔ مہنگے شادی ہالوں میں بکنگ ہی نہیں۔اگر یہ حال یہ تو بیاہوں میں کھانے کتنے مہنگے ہوتے ہیں۔ پھر کھانوں کے ساتھ کھانا ضائع کرنا کتنا زیادہ ہے۔ایک آدمی ہوگا اور پلیٹ میں چاول ڈال کر اس ہال میں جو ترکاری اورسالن مہیا ہوگا سارے آئیٹم ڈال کر اپنی پلیٹ میں پوری ایک عمارت کھڑی کر دے گا۔ اس کو ڈر ہوگا کہ آخر میں کہیں فیرنی ختم نہ ہو جائے۔اس لئے پلیٹ کے اور جیسے آج کل کی برفانی چوٹیاں ہیں کہ آسمان تک اوپر اٹھی ہوئی ہیں۔ ان چوٹیوں پربرف نے اپنی چادر ڈال رکھی ہوتی ہے۔اس باراتی کے ہاتھ میں تھامی ہوئی پلیٹ میں سب سے اوپر سفید کھیر کو بھی لپیٹا ہوگا۔مگر افسوس کہ وہ یہ پوری پلیٹ کھانے سے رہا کچھ کھائے گا اور باقی کی بھری پُری پلیٹ وہیں ٹیبل پر رکھ کر ہاتھ جھٹکے گا اور ٹشو سے پونچھ ایک اور اد ھ کھائی پلیٹ پر رکھ وہاں سے نکل بھاگے گا۔ مہمانداروں نے تو اپنے مہمانوں کو کھانا پروسنا ہوتا ہے۔انھوں نے ولیمہ میں شرکت کرنے والوں کی مرضی پر چھوڑ دیاہوتا ہے کہ جتنا وہ کھا سکیں ڈالیں اور کھائیں۔ مگر ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا۔کیا وہ اپنے گھر میں کھاتے ہوئے ایساکرتے ہیں۔ وہاں تو ان کو اپنے اخراجات کا بہت خیال ہوتا ہے۔گول میز والے کھانے پرعام طور سے ایسا ہوتا ہے کہ چار بندے اگر آپس میں دوست رشتہ دار ہوں اور باقی کے اجنبی ہوں۔اس پروہ چاروں تعلق دار کھانے کی میز پر چھا جاتے ہیں۔ جب کھانا پروس لیاجاتا ہے فوراً چاولوں کے پتنوس پر جھپٹتے ہیں۔ایک صاحب اپنی پلیٹ بھر لیں تو اپنے ساتھ بیٹھے اپنے پیارے کو وہ ٹرے حوالے کردیتے ہیں۔سامنے والے اجنبی مہمان اپنا سامنہ لے کر دیکھتے رہ جاتے ہیں۔بلکہ چاولوں میں سے گوشت بھی اڑا لیتے ہیں۔ چاول اور بھی آ جاتے ہیں مگر اس طرح کا نا شائستہ رویہ قابلِ تعریف نہیں۔پھر نہ تو کھانے والا کہیں جاتا ہے اور نہ کھلانے والے کہیں بھاگے جاتے ہیں۔آپ ڈال لیں ڈونگا خالی ہو تو اور لے آئیں گے۔لیکن اگر اور نہ بھی آئے تو تھوڑا کم کھا لیں توکیا نقصان ہو جائے گا۔ کھانا بہت سا بچ جاتا ہے۔اتنا کہ اس سے ایک اور ولیمہ ہوسکتا تھا۔ مگر ہم لوگوں نے کھانا ضائع کرنا ہے اور بس کرنا ہی ہے۔وہ اس موقع پر کھانے پینے کی چیزوں کو ایک بہتا ہوا دریا سمجھتے ہیں۔مگر ہمیں لگتا ہے کہ ہم جلد از جلدکھا لیں کہ ہم نے کہیں بھاگے جانا ہے۔کھلانے والے شادی کے گھر والوں نے ہر طرح سے اپنے مہمانوں کو پیٹ بھر کر کھلانے کا تہیہ کیا ہوتا ہے۔پھراس پر انھوں نے لاکھوں روپے خرچہ کیاہوتا ہے۔ان کا مقصد کبھی نہیں ہوتا کہ کوئی کم کھائے کوئی بھوکا اور سوکھے منہ یہا ں سے اٹھ چلے۔ سب کو اپنے اپنے مقدر کا رزق مل جاتا ہے۔ایک تو ہمارے ہاں دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اچھا خاصا بڑا ہا ل ہوگا۔ جس میں ضرور ت سے زیادہ میزیں سجی ہوتی ہے۔جو لوگ کھانے کے انتظارمیں ہوتے ہیں ان کو صرف یہ کہہ دیں کہ آئیں جی کھانا تیار ہے۔اس موقع پربڑے بڑے معقو ل اور وضعدار اشخاص بھی ہڑبڑا کر اٹھتے ہیں اور ہم جیسے بھی خالی میزوں کی جانب لپکتے ہیں۔جیسے ساری میزیں ابھی کے ابھی بھر جائیں گی۔معلوم نہیں یہ ہماری بیماری کب دور ہوگی۔ بندہ آہستہ سے اٹھے اور باوقار انداز سے کھانے کی میزوں کی جانب بڑھے۔اس میں کسی کا کیا جاتا ہے۔پھر بعض صاحبان تو ایسے موقع پرایک کرسی پر خودبیٹھ دوسری خالی نشست پر رومال رکھ دیں گے۔ کیونکہ وہ کسی اوردوست یار عزیز کے انتظارمیں ہوتے ہیں کہ وہ ابھی تیزی کے ساتھ اٹھ کر راستے میں قدم اٹھاتا آ رہا ہوتا ہے۔میں حیران ہو کہ اس موقع پرہم کسی دوسرے کی شناخت ہی بھول جاتے ہیں ہمارے علاوہ کوئی اور بھی انسان ہی ہوتا ہے۔ہمارا بھائی بند ہے۔سب کوکھانامل جائے گا۔خواہ کوئی کہیں بھی بیٹھے کوئی بھوکا نہیں رہے گا۔ جب یہ باراتی کرسیاں سنبھال لیتے ہیں تو آرام سے دیکھتے رہ جاتے ہیں کہ باقی کتنی ہی میزیں ویسی کی ویسی خالی پڑی ہوتی ہیں۔تو جب میزیں بغیر آدمیوں کے خال مخال پڑی ہیں پھراتنا بھاگنے دوڑنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔