لکی مروت میں اے ایس آئی سمیت 6 پولیس اہلکاروں کی شہادت کے بارے میں حکام کا کہنا ہے کہ پولیس موبائل لکی مروت میں ہفتہ وار میلے کی سیکورٹی کے لئے جارہی تھی کہ اس دوران موٹرسائیکل سوار دہشتگردوں نے تھانہ ڈاڈیوالہ کی حدود میں موبائل پر اندھا دھند فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں 6 پولیس اہلکار شہید ہوگئے۔پولیس حکام نے تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ دہشتگردوں کے حملے میں شہید ہونے والوں میں ڈیوٹی انچارج اسسٹنٹ سب انسپکٹر علم دین کے علاوہ دیگر افراد کی شناخت کانسٹیبل پرویز،احمد، دل جان، عبداللہ اور محمود کے ناموں سے ہوئی ہے۔یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ صوبے میں امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں خیبرپختونخوا پولیس پر فرض کی بجاآوری اور قیام امن کے حوالے سے ایک بارپھر دباؤ میں اضافہ ہورہا ہے۔ضم شدہ قبائلی اضلاع کے علاوہ ٹانک‘ڈیرہ اسماعیل خان،بنوں، صوابی، چارسدہ‘ پشاوراور سوات میں پولیس گاڑیوں اورچوکیوں کو قانون شکن عناصر کی جانب سے پچھلے کچھ عرصے کے دوران نشانہ بنایاجا چکا اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ خیبرپختونخوا پولیس کاشمار دنیا کی ان چند بہادر پولیس فورسز میں ہوتا ہے جو عالمی سطح پر اپنی بہادری کی دھاک بٹھا چکی ہیں ہماری جواں مرد پولیس نے پچھلی ایک دہائی کے دوران دہشتگردوں کاجس پامردی سے مقابلہ کیا ہے اس پر نہ صرف کے پی پولیس بجا طور پر فخر کرسکتی ہے بلکہ اس جرات اور بہادری پرصوبے کے عوام کوبھی ناز ہے۔ ٹیکنالوجی، اعلیٰ ٹرینڈ افرادی قوت، گولہ بارود،ہائی ٹیک گاڑیوں اورجدید کمیونیکیشن سسٹم کی کمی کے باوجود ہماری پولیس نے امن کویقینی بنانے کے لئے ہر طرح کی قربانیاں دے کر جوقابل تحسین کارنامے انجام دیئے ہیں وہ ہماری اس بہادر فورس کا ہی طرہ امتیاز ہے۔اگرچہ 1970 سے اب تک مختلف قسم کے حملوں اور مقابلوں میں مجموعی طور پراٹھارہ سو سے زائد پولیس اہلکار شہید ہوچکے ہیں لیکن ان میں سے زیادہ تر دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہونے کے بعد سے گزشتہ 15 سالوں کے دوران حملہ آوروں کانشانہ بنے ہیں۔پولیس ذرائع کے مطابق1970 سے 2006 تک 389 پولیس اہلکار شہید ہوئے لیکن 2007 سے لے کر اس سال کے وسط تک کے پی میں پولیس کے1480 جوان اورافسرجان کی بازی ہار چکے ہیں۔ پچھلے 15 سالوں کے دوران خیبرپختونخوا پولیس کے شہید ہونے والے ہیروز میں کچھ اعلیٰ افسران جیسے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل صفوت غیور اور اشرف نور، ڈی آئی جی ملک سعداور عابد علی، چھ ایس ایس پیز/ایس پیز اور 15 ڈی ایس پیز/قائم مقام ایس پیز شامل ہیں۔ 2007 سے اب تک 32 انسپکٹرز، 109 سب انسپکٹرز، 88 اے ایس آئیز، 155 ہیڈ کانسٹیبلز اور 1072 کانسٹیبلوں نے مختلف حملوں میں ملک اور شہریوں کے تحفظ کے لیئے اپنی قیمتی جانیں نچھاورکی ہیں۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق 2007 میں 107 پولیس اہلکار، 2008 میں 172، 2009 میں 209، 2010 میں 107 اور 2011 میں 154، 2012 میں 106، 2013 میں 134،2014میں 1142،2015 میں 61 پولیس اہلکار، 2016 میں 74، 2017 میں 36، 2018 میں 30، 2019 میں 38، 2020 میں 28 اور 2021 میں 59 پولیس اہلکار مختلف حملوں کا شکار ہوئے۔ جب کہ رواں سال کے دوران پولیس پر حملوں میں اب تک 70سے زائد اہلکار جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ یہ پولیس کی ان لازوال قربانیوں کانتیجہ ہے کہ آج ہمارے صوبے میں دہشت گردی کی ایک خطرناک بین الاقوامی لہر کے بعد نہ صرف امن وامان مکمل طور پر بحال ہوچکا ہے لہٰذا ایسے میں پوری قوم بجا طور پر یہ توقع رکھتی ہے کہ ہماری بہادراور فرض شناس پولیس فورس نہ صرف امن دشمن قوتوں کے خلاف اپنی لازوال قربانیوں کاسفر جاری رکھے گی بلکہ ان قوتوں کے منفی عزائم ناکام بنانے کے لئے پہلے سے بھی زیادہ منظم اور فعال انداز میں اپنے فرائض انجام دیتی رہے گی۔