ایک تو ہمارے ہاں کے تعمیراتی سلسلے ختم ہونے ہی میں نہیں آ رہے۔ایک نہ ختم ہوتا ہوا مکانوں کا سلسلہ ہاتھ باندھے ہوئے قطار اندر قطار تعمیر کی ایک زنجیر جس ایک سرا بھی شاید معلوم نہ ہو کہ ابتدا کہاں سے ہورہی ہے۔کوئی بلڈنگ بن رہی ہے تو اگر ایک طرف ہے۔ پھراس کے گرد چار دیواری سی لگا دیتے ہیں۔ جب تک اندر عمارت پورے طور سے تعمیر نہ جائے اس کو پبلک کے سامنے نہیں لاتے۔ اندر احاطے میں اتنی گنجائش ہوتی ہے کہ تعمیر کا سامان لاکر ڈھیر کر دیا جائے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو اور نہ کوئی راہگیر ہو یا کوئی موٹرکار میں ہو کہ اس کو تکلیف پہنچے۔مگر یہاں تو اور ہی عالم ہے۔شہر کے اندر تنگ و تاریک علاقوں میں چونکہ تعمیر کی مزید گنجائش اب نہیں رہی۔اس لئے اب وہاں تعمیری سرگرمی بہت کم دیکھنے میں آتی ہے۔ ہاں اگر اوپر کو ایک اور منزل چڑھائی جانے لگے تو پھرکہیں جا کر یہ نظارے دکھائی دیتے ہیں۔ وگرنہ تو کہیں مرمت ہو رہی ہو تو کہیں راہ چلتوں کا راستہ بند ہوتا ہے۔مگر شہر کے باہر تو یہی شہر بہت تیزی سے پھیل رہاہے۔گھر کے ساتھ ایک اور گھربن رہا ہے او رکالونیاں ترتیب دی جارہی ہیں۔ کبھی کس نام پر اور کبھی کس نام سے نئی آبادیاں ظہور میں آ رہی ہیں۔مگر جو راستے شہر کے باہر پہلے ہی سے تنگ ہیں وہاں تعمیر کرنا مشکل کام ہوتا ہے۔جہاں نہ تو پاس میدان ہو اور نہ ہی کوئی اور خالی جگہ ہو جہاں سیمنٹ اینٹ گاراوغیرہ لا کر ڈھیر کر دیا جائے۔ آٹھ فٹ کی سڑک ہوگی اور وہاں موڑ الگ ہوں گے اور ٹریفک بھی برابر ہوگی۔کہیں گاڑی جا رہی ہے اور سامنے سے الگ ٹریفک آرہی ہے۔وہاں اگر کوئی مکان بن رہاہے تو بس جب تک یہ تعمیر دو تین مہینے تک مکمل نہیں ہوتی آنے جانے والوں کی شامت آتی رہے گی۔ مگر ہم راہ گزرنے والوں پر بھی افسوس ہے۔اس طرح کہ کوئی نہیں رکتا اور مالک سے نہیں پوچھتا کہ آخر آپ کا یہ سلسلہ کب تک دراز رہے گا۔ کیونکہ اس گزرنے والے کے لئے منٹ دو منٹ زیادہ سے زیادہ تکلیف ہوگی۔پھر وہ گزر جائے گا اور مڑ کر دیکھے گا بھی نہیں۔ یہ اوروں کا کام ہے جو پیچھے آ رہے ہیں کہ کیسے اپنا مسئلہ حل کرتے ہیں۔گلی کے سرے پراینٹوں کا ڈھیر لگا دیں گے۔ٹرالے والے وہاں اینٹیں پھینک کر نکلنے کی کریں گے۔اب مالک کا کام ہے کہ وہ کس طرح ان اینٹوں کو ٹھکانے لگاتا ہے۔حتیٰ کہ گلی کے اندر جانے والے بیس تیس گھروں کے لوگوں میں بھی اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ ا س پر احتجاج کریں۔کیونکہ محلہ داری اور رواروی اور مروت کاتقاضا ہے کہ اگلے کو برداشت کریں۔ پھر گزرنے والے اینٹوں کے ڈھیر کے اوپر سے آڑھے ترچھے ہو کر گزریں گے۔جن میں خواتین اور بچے بھی ہوں گے۔ لیکن اس موقع پرمکان مالک کو بھی لاج نہیں آتی کہ وہ جلد از جلد اینٹوں کا ڈھیر یہاں سے ہٹا دے۔وہ بھی ایک طرف بیٹھا دھوپ تلے قہوہ کی سرکیاں لے رہاہوگااور تعمیرکے سلسلے کا جائزہ لے رہا ہوگا۔کبھی آپ دیکھیں گے کہ گلی کی نکڑ کوتو چھوڑعین سرکاری سڑک کے بیچ اپنے گھرکے باہر بجری کا ٹرک الٹا دیں گے۔اب جو گاڑی گزرے گی اور ایک طرف کھڑی ہو جائے گی اور سامنے والی سمت سے آنے والی گاڑیوں کے گزرنے کا انتظار کرے گی۔جب وہ گاڑیاں گزر جائیں تو یہاں سے گاڑیوں کا قافلہ آگے کو روانہ ہوگا۔ وہ بجری ٹائروں کے دباؤ سے اور زیادہ پھیل جائے گی۔ پھر اس پرسے چار پہیوں کی گاڑی تو آسانی سے گزر جائے گی مگر دو پایوں کا موٹر سائیکل کبھی اگلے ٹائر کے نیچے پتھر آ جانے سے بیوی بچوں سمیت زمین پر جا پڑے گا اب تو خیرسے سردی کا سٹارٹ ہے اور چھ مہینے تو تعمیر کے لئے بہت زیادہ موزوں ہیں کیونکہ سردی میں مزدور اور گل کار وغیرہ اچھے طریقے سے کام کرلیتے ہیں۔مگر گرمی میں ان کا کام کرنا دوبھر ہو جاتا ہے۔یہی ٹھنڈے مہینے ہیں جن میں تعمیرزیادہ اچھے طریقے سے ہوسکتی ہے۔لہٰذا ہر مکان بنانے والے کو موقع ملا ہے کہ گرمیوں کے لوٹ آنے سے پہلے پہلے اپنا مکان تعمیر کر لے۔