اور اب شمالی کوریا بحران

اس وقت اگر دیکھا جائے تو دنیا کے زیادہ ترخطے تنازعات میں گھرے ہوئے ہیں اوراس صورتحال میں عالمی برداری بٹی ہوئی ہے۔ اسلئے تو کوئی تنازعہ حل ہونے میں کامیابی نہیں مل رہی۔اقوام متحدہ کا کردار بھی اس وقت سوالیہ نشان ہے کہ یہ عالمی ادارہ تنازعات کے حل میں کس قدر موثر ہے۔حال ہی میں شمالی کوریا کے حالیہ میزائل تجربات کی مذمت کے لئے امریکہ نے سلامتی کونسل کی ہنگامی میٹنگ طلب کی تھی۔ تاہم کونسل پیونگ یانگ پر کوئی نئی پابندیاں نافذ نہیں کرسکی حتی کہ اس کے خلاف کوئی باضابطہ بیان بھی جاری نہیں کرسکی۔امریکہ  اور اس کے اتحادیوں نے پیر کے روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک ہنگامی میٹنگ میں شمالی کوریا کی جانب سے مبینہ بین البراعظمی بیلسٹک میزائلوں کے حالیہ تجربات کے لئے اس کی سخت مذمت کی۔تاہم روس اور چین کی جانب سے مخالفت کی وجہ سے سلامتی کونسل شمالی کوریا کے ان حالیہ اقدامات کے جواب میں کوئی قدم نہیں اٹھا سکی۔اتوار کے روز شمالی کوریا کے وزیر خارجہ نے میزائل تجربات کی مذمت کرنے میں امریکہ کا ساتھ دینے کے لیے اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری انٹونیو گوٹریش کو کٹھ پتلی قرار دیا تھا۔اقوام متحدہ میں امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ اور 14 دیگر ملکوں کے نمائندوں کی جانب سے دستخط شدہ مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے،عوامی جمہوریہ کوریا سلامتی کونسل کے طرف سے کوئی قدم نہیں اٹھانے کی وجہ سے بلا روک ٹوک اقدامات کر رہا ہے۔ قبل ازیں میٹنگ میں امریکہ نے ایک مجوزہ صدارتی بیان تقسیم کیا جس میں میزائل لانچنگ کی مذمت کی گئی اور شمالی کوریا سے کہا گیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی جانب سے عائد حالیہ پابندیوں پر عمل کرتے ہوئے بیلسٹک میزائلوں اور جوہری تجربات سے دور رہے۔شمالی کوریا نے اس سال غیر معمولی تعداد میں میزائل تجربات  کیے ہیں اور اس بات کا خدشہ بھی لاحق ہے کہ وہ 2016 کے بعد پہلی مرتبہ جوہری ہتھیار کے تجربے کی ایک اور تیاری کر رہا ہے۔شمالی کوریا نے اس سال غیر معمولی تعداد میں میزائل تجربات  کیے ہیں شمالی کوریا نے اس سال غیر معمولی تعداد میں میزائل تجربات  کیے ہیں۔امریکی سفیر نے جو بیان تقسیم کیا اس پر عمل درآمد کے لئے ضروری ہے کہ سلامتی کونسل کے تمام 15 اراکین اس پر دستخط کریں۔روس کی نائب سفیر انا ایوستی جنیوا نے کہا کہ شمالی کوریا کی بڑھتی ہوئی جارحیت کا سبب یہ ہے کہ واشنگٹن پیونگ یانگ پر پابندیاں نافذ کرکے اور طاقت استعمال کرکے اسے یک طرفہ طور پر ہتھیاروں سے محروم کر دینا چاہتا ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے جنوبی کوریا کے ساتھ امریکہ کی حالیہ فوجی مشقوں کا ذکر کیا جس میں شمالی کوریا کے میزائل اور دفاعی نظام کو نشانہ بنانے کی مشق شامل تھی۔ اس نے پیونگ یانگ کو ناراض کر دیا۔ دوسری طرف امریکہ کا کہنا ہے کہ جنوبی کوریا اور جاپان کے ساتھ یہ تمام فوجی مشقیں دفاعی نوعیت کی تھیں۔ایوستا جنیوا نے کہا کہ صورت حال کو مزید بگڑنے سے بچانے کے لئے بین کوریائی مذاکرات اور کثیر ملکی مذاکرات کی ضرورت ہے۔اقوام متحدہ میں چین کے سفیر زانگ جون نے کہا کہ اقوام متحدہ کو چاہئے کہ صورت حال کے قابو سے باہر ہو جانے سے قبل شمالی کوریا کے معاملے پر بات کرے۔اور دیکھا جائے تو چین کا مؤقف اس حوالے سے درست ہے جس کی تائید ضروری ہے۔