موسم نے پانسہ پلٹا ہے۔سردیوں کے متوالوں کے دن بدل گئے۔خوش تھے کہ سردی آنے والی ہے خوشحالی ہے کہ موسم کی ٹھنڈک نے اپنا بھرپور تاثر چھوڑا ہے۔ خوشحال ہیں کہ دھوپ تلے بیٹھے ہیں۔مگر قرار ایک جگہ بھی نہیں۔ یہی تو انسان کی پہچان ہے۔ دھوپ میں گھنٹہ بیٹھو کہ گھٹنوں کو آرام ملے مگر بدن میں سوئیاں جو چھبنے لگتی ہیں۔ پھرچارپائی کو چھت پر خرخراہٹ سے گھسیٹو اور درخت کی چھاؤں کے نیچے بیٹھ جاؤ۔پھر تھوڑی دیر کے بعد نیچے والی منزل میں آ جاؤ۔ یہ نیچے والی منزل وہی ہے جہاں ابھی سردی کے کارن جب جسم و جاں کو یخی نے گھیرا تو دل چاہاتھا کہ اوپر چلے جائیں۔ سو اوپر جا کر توشک خانے سے چارپائیاں نکالیں۔چار مرلے کی کھلی چھت پر ایک محفل سی سجا لی۔ گھر میں آرڈر جاری کر دیا کہ گیارہ بجے کا قہوہ اوپر پئیں گے۔چھٹی کا دن انجوائے کرنا ہے۔پھر اس سے بڑ ھ کر اور کون سی تفریح ہے کہ دھوپ سینکیں اور اس کی تپش میں سر میں غنودگی گھس جائے تو بدن سست پڑے اور دونوں ہاتھوں سے سر تھام کر لطف لینے کو سر پر اڑتے ہوئے کبوتروں کے پروں کی آواز میں آنکھیں بند کر لیں۔ مونگ پھلی بھی لے آنا اوپر سے آواز دینا اور پھر بچوں کے ہمراہ گپ شپ کا ڈول ڈالنا۔ گھر والی بیچاریاں تو اسی طرح خدمت گزار ہوتی ہیں۔مگر کہا چھوڑو بچی قہوہ اچھا بناتی ہے لے آئے گی۔پھر خود دوسرے بچوں کے ہمراہ چارپائیوں پر جا کر دھڑام سے لوٹ مارنا اور دھوپ کی تھپکیوں میں آنکھیں بن کرلینا۔آسمان پر اڑتے کبوتروں کی خیل ہُو کی آواز کے ساتھ سروں کے بہت قریب سے گزرتی ہے تو دوسری بھی اس کے بعد جلدہی چھن چھن پاؤں کے چھلوں کے بجنے کی آوازوں میں گزر جاتی ہے۔وہاں سے کبوتر اڑانے والے ہمسائے اپنی دیواروں کے پیچھے اپنے حصے کے آسمان کو دیکھ دیکھ کر جی رہے ہیں۔ ہر ایک کی اپنی زندگی ہے۔ کسی کا سکون دھوپ میں کبوتر اڑانے میں ہے خواہ گرمی کی چلچلاتی کڑکڑاتی دھوپ ہو اور کوئی اس سردی کی زر وسیم کی کرنوں کے نیچے بیٹھا سنہری کرنوں کو بلوریں فجان میں قہوہ کے رنگ میں آمیزش سے نگاہوں کا الگ اور زبان و ذائقہ کا الگ لطف حاصل کرتا ہے۔کوئی کبوتر قابو کر کے اڑاتے ہوئے خوش ہوتا ہے او رکوئی کوہاٹی بازار میں جا کر وہاں سے کبوتر اورطوطے مینا خرید کر گھر کی چھت پر بطور صدقہ اور خیرات ہوا میں اچھال کر اڑا دیتا ہے کہ یہ بھی نیکی ہے۔پرندوں سے محبت کی بات ہے۔کوئی توان پنچھیوں کے ذریعے اپنے آپ کو قدرت سے جوڑ کر رشتہ استوار کرتے ہیں۔کیونکہ پنجرہ کے پنچھی بھی تو دل کو سکون کا باعث ہوا کرتے ہیں اور کچھ توپنجروں کے پنچھیوں کو پنجروں سے نکال کر ہوا میں اڑا کر دل کا سکون حاصل کرتے ہیں۔کوئی پرندوں کو اڑتا ہو ا پاکر سکونِ دل کا اہتمام کرتا ہے او رکوئی ان پنچھیوں کو پنجروں میں رکھ کر ہمہ وقت دیکھتے ان کی خدمت کرتے ہوئے سکون حاصل کرتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ ہم جس ماحول میں رہتے ہیں وہاں بہت ساری اور مخلوقات بھی موجود ہیں جن میں پرندے تو ہماری زندگی کا ایک اہم حصہ ہیں جن کے دم سے نہ صرف زندگی کی رونقیں بحال ہیں بلکہ ماحول کی صفائی ستھرائی میں بھی پرندوں کا اہم کردار ہے اس لئے جو لوگ پرندوں سے محبت کرتے ہیں اور ان کی دیکھ بھال کیلئے وقت نکالتے ہیں وہ یقینا اپنے ماحول کو سدھارنے کا اہم فریضہ انجام دے رہے ہیں۔چھت پرپاس کی پرائمری سکول کے صحن میں اُگے ہوئے دو درختوں کی گھنی شاخیں چھت پر یوں جھکی پڑی ہیں کہ گویا یہ درخت ہم نے اپنی چھت کی سیمنٹ کی زمین میں اُگا رکھے ہیں۔شام سمے جب اس درخت میں چڑیو ں کی چہکار کی صدائیں ابھرتی ہیں تو ہم بھی اپنے آپ کو قدرت کے بہت قریب سمجھتے ہیں۔کیونکہ خوشی اس بات کی ہوتی ہے کہ یہ اپنے گھونسلوں میں آزاد روی سے آمد ورفت کرتے ہیں۔جہاں ان تنکوں تیلوں کے نشیمن کے اندر ان کے بچے چوں چوں کررہے ہوتے ہیں۔ اپنی جگہ یہ منظر اور یہ ننھی منی آوازیں دل کو بہت سکون دیتی ہیں۔میں پرندوں کوگھرلا کر پنجروں میں قید کرنے کے سخت خلاف ہوں۔ کیونکہ یہ آزاد پیدا ہوئے ہیں اور انھیں آزاد رہنا چاہئے۔میں نے کبھی اپنی چھوٹی سی خواہش کے لئے ان کی کھلم کھلا فضا برباد کرنے کی کوشش نہیں کی۔میں اسی سوچ میں تھا او ریہ لمحہ بھر کی سوچ تھی کہ اچانک قہوے کی پیالی میں گھلی ہوئی سورج کی کرنوں نے جی للچایا کہ ایک سرکی لی جائے۔ بلکہ میں نے قہوہ کی چینک کو اپنی طرف سرکا دیا جس پر موٹا کپڑا رکھا تھا کہ اس سردی میں قہوہ جلد ٹھنڈا نہ ہوجائے بلکہ یوں کہ کہیں چینک دبکے ہوئے پنچھی کی طرح ہوا میں اچانک اڑ نہ جائے اور ہمارا قہوہ کا اپنا سا نشہ اڑن چھوہو جائے۔ دوسرے درخت کی گھنی شاخوں میں ایک پتنگ الجھی ہوئی تھی۔جس پرشاید اڑانے والا مزید قابو نہ رکھ سکااور مانجھے کو ڈھیل دیتے ہوئے سامنے رکاوٹ ڈالے درخت میں الجھا بیٹھا۔پتنگیں بھی اڑتی ہیں اورکبوتر بھی اڑتے ہیں۔مگر کیاکروں کہ مجھے مصطفی زیدی کا شعر بھولے سے بھولتا نہیں ”تتلیاں اڑتی ہیں اور ان کوپکڑنے والے۔سعی ئ ناکام میں اپنوں سے بچھڑجاتے ہیں“۔