کسی کے پاس دو دو کمبل ہیں۔جو اس نے رات کو اس ٹھٹھرتی ہوئی سردی میں اوڑھ رکھے ہوتے ہیں۔ ان کو اور کشادگی ملے۔ مگر ان دل خوش کن لمحات میں وہ لوگ نگاہوں سے کیوں اوجھل ہیں۔ جن کے پاس رات کو اوڑھنے کے لئے ایک کمبل تو کیا کوئی چادر بھی نہیں۔ جن کے ساتھ اگر فیملی ہے تو ان کے لئے واجبی سی چادریں ہیں۔ان جھگیوں میں جو اوپن ایئر کی ٹھنڈی یخ ہوا میں خود یہاں رین بسیرا کئے انسانوں کے اوپر ان کو چھپانے کی غرض سے ہوا میں لرزہ بر اندام ہوتی ہے۔جہاں کی کپڑے کی چھت کی جھریوں میں سے ٹھنڈی ہوا تیر کی سی سینے پر چلتی رہتی ہے۔کوئی مسافر اگر ٹرین کے انتظار میں رات کو وہیں ریلوے پلیٹ فارم پرسو گیا تو بینچ پرسے پولیس پیادہ اسے زبردستی اٹھا کر وہاں سے چلتا کر دیتا ہے۔ وہ اپنے اس بوجھ اپنے جسم کو کہاں کہاں لے کر گھومتا پھرے۔ وہ قریب کہیں شہر کی بند دکان کے تھڑے پرلرزتاہوا سونے کی کوشش میں سو بھی جاتا ہے۔ہمیں اپنے گرد و پیش پر نظر رکھنی چاہئے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم محفوظ ہیں تو سب دنیا والے محفوظ ہیں ہم پُر باش ہیں تو باقی سب بھرے پیٹ سوئے پڑے ہیں۔کسی کو کچھ پتا نہیں ہوتا کہ کون کہاں کیا کر رہا ہے۔ایک دوسرے کے حال کی کیا خبر ہو کہ ہمسایوں میں اگر کوئی تکلیف میں ہوتو کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوپاتی ”نہ مڑ کر بھی بے درد قاتل نے دیکھا۔تڑپتے رہے نیم جاں کیسے کیسے“۔گرمی میں تو چلو کسی طرح کسی حد تک کسی بھی انداز سے گزاراہو جاتا ہے۔ مگر سردی میں تو جو سردی سے تڑپ کر رات گزار رہے ہوتے ہیں وہ ہماری طرح انسان ہوتے ہیں۔انسان تو کیا جانور تک کا خیال رکھنا بھی انسانیت کا فرض ہے۔مگر یہاں تو اپنے آپ کو دیکھا جاتا ہے کہ میں ہم اور ہمارے اگر درست حالات میں ہیں تو بس یہی ٹھیک ہے۔ باقی جو ہے وہ ویسے ہی ہے یہ دنیا ہمارے لئے ہے او رہم اسی دنیا کے لئے بنے ہیں۔اس سوچ کو تیاگ دینا چاہئے۔ مانا کہ انسان دوسرے آدمی کی پرواہ کرتا ہے۔مگر عام طور سے ایسا نہیں ہوتا۔وہ بھی ہیں جو دوسرے کو تڑپتے ہوئے دیکھ کر وہاں سے گزر جاتے ہیں۔ سوچتے ہیں کہ اب اس سردی میں دوسرا کمبل کہاں سے لاؤں۔کوئی نیک بندہ آ جائے گا جو اس کو ڈھانپ دے گا۔ کوئی نہ کوئی اس کابندوبست کر ہی لے گا۔ سب سے پہلی ذمہ داری اسی کو محسوس کرنی چاہئے جس نے پہلی بار یہ منظر دیکھا۔ شہر سے باہر اس قسم کے قبیلے اپنے سے کپڑے کے خیموں میں پناہ گزین ہیں۔ ان کی رات گزر ہی جاتی ہوگی۔ان کے ساتھ بال بچے بھی ہیں دن کو وہ دھوپ میں بیٹھے رہتے ہیں رات کی خون جما دینے والی سردی میں وہ کیسے گزارا کرتے ہوں گے۔جب رات کے وقت گھروں کے اندر دیوار و در کے بیچ میں شہری لحاف اوڑھ کر سوتے ہوں تو گھرسے باہر کی کھلی ہوا میں اگر کپڑے کا خیمہ لگا ہو اور وہاں اندر بال بچے سردی سے کانپ رہے ہوں تو میں حیران ہو ں کہ شہر میں گھروں کے مالکان کو نیندکیسے آتی ہوگی۔یقین کریں ہمارے پاس ان کی مدد کرنے کو ضرورت سے زیادہ ہوتا ہے۔غور کریں اور آگے پیچھے دائیں بائیں دیکھیں آپ کو کچھ نہ کچھ فالتو مل ہی جائے گا جو ہم اگر ترک کر دیں تو ہمارے اوپر اس کا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ انسان دوسرے انسان کی مدد کرنے والا ہے۔اس کی سرشت میں مدد کرنا شامل ہے۔مگر کیا ہے کہ ہم میں سے زیادہ تر لوگ لا علم ہیں او رسمجھتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔جس اطمینان سے وہ رہائش کئے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ دوسرے بھی اسی انداز زندگی سے گزار رہے ہیں۔حالانکہ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔یہ فوم والے کمبل اور بیش قیمت رضائیاں ہر ایک کو تو نصیب نہیں۔ ہر سیزن میں ہر طرح سے دوسروں کی مددکی جاتی ہے۔مگر انسانیت کے دکھ بہت زیادہ ہیں۔ ”زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں۔ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں“۔کسی نے سرما کے اس موسم میں پینا فلیکس کے بڑے بینر لے کر گھرمیں بطور لحاف رکھے ہیں کسی نے پھٹی پرانی ترپالیں او رپھوڑ رکھے ہیں۔جن کووہ اپنے اوپراوڑھ کر شب گذاری کر لیتے ہیں۔مگر جہاں یہ ہو ں اور کم ہوں تو وہ نیچے فرش پرڈالیں یا ان کو اوپراوڑھ لیں۔محسن احسان کا وہ شعر یاد آتا ہے ”ترس نہ اتنا بھی کمخواب و پرنیاں کے لئے۔ سکونِ دل ہے میسر تو خاک پرسو جا“۔ مگر یہ تو زمین پر بچھانے کے لئے ہیں۔ان سردیوں میں حریر پرنیاں اور ریشم نہ سہی۔مگر اوپر لینے کے لئے کچھ ترپال ہی تو ہو کہ رات گزرے۔