پشاور سٹی ٹریفک پولیس نے بنا ’ہیلمٹ‘ موٹرسائیکل سواروں کے خلاف جاری مہم میں پچاس ہزار سے زیادہ (52 ہزار 422) جرمانے کئے ہیں۔ ٹریفک قواعد پر عمل درآمد کرنے کی جاری مہم میں موٹرسائیکل سواروں کے لئے لازم ہے کہ وہ ہیلمٹ پہنیں جبکہ موٹرگاڑی میں سفر کرنے والوں کے لئے لازم ہے کہ کم سے کم فرنٹ سیٹ پر بیٹھے دونوں افراد پر لازم ہے کہ وہ ’سیٹ بیلٹس‘ کے ذریعے خود کو نشست سے باندھے رکھیں تاکہ (خدانخواستہ) کسی حادثے کی صورت میں جان نقصان نہ ہو۔ خوش آئند ہے کہ ٹریفک قواعد پر عمل درآمد یقینی بنانے سے متعلق اقدامات میں ’غیرمعمولی گرمجوشی اور مستعدی‘ پائی جاتی ہے لیکن ’چیف ٹریفک آفیسر (CTO) پشاور‘ کی ایک سال سے زائد عرصے سے جاری کوششوں کے باوجود مسئلہ کیوں حل نہیں ہورہا،اس حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ پشاور میں صرف موٹرسائیکل سواروں کی شامت آئی ہوئی ہے جبکہ موٹرگاڑی سواروں اور بالخصوص جا بجا غیرقانونی بس اڈوں ور بس سٹاپس کی وجہ سے پیدا ہونے والی ’قانون شکنی‘ کی صورتحال جوں کی توں ہے۔ جی ٹی روڈ (حیات آباد براستہ یونیورسٹی ٹاؤن تا چغل پورہ)‘ سٹی سرکلر روڈ (سکندر پورہ سے رام داس) اور رنگ روڈ (چغل پورہ سے حیات آباد) پر ٹریفک کی روانی میں حائل تجاوزات کے مسئلے کو بہت ہی کم توجہ دی جا رہی ہے۔ تجاوزات کی وبا اندرون شہر کے کئی علاقوں میں بھی پھیل چکی ہے جیسا کہ اندرون یکہ توت (گیلانی چوک سے منڈا بیری‘ چڑیکوبان‘ سبزی منڈی‘ گھنٹہ گھر‘ ثقافتی راہداری تا بازار کلاں) ہتھ ریڑھیوں اور تہہ بازاری کا شمار سینکڑوں سے ہزاروں تک جا پہنچا ہے۔ اندرون شہر کے مذکورہ سبھی علاقے ٹریفک پولیس کی نظروں (ریڈار) سے اُوجھل ہیں اُمید ہے کہ پشاور کی ٹریفک پولیس اور ضلعی حکومت و انتظامیہ کے فیصلہ مل بیٹھ کر ’تجاوزات کے مسئلے‘ کا کوئی ایسا پائیدار حل تلاش کریں گے‘ جس سے پشاور میں آمدورفت کے ذرائع اور صورتحال ”نظم و ضبط“ کی پابند ہو جائے۔پشاور ٹریفک پولیس نے رواں سال کے ابتدائی چھ ماہ (جنوری سے جون دوہزاربائیس)کے دوران ٹریفک قواعد کی خلاف ورزی پر ”2 لاکھ 97 ہزار 913 افراد“ سے 6 کروڑ 93 لاکھ 42 ہزار 100 روپے جرمانے وصول کئے اور ٹریفک پولیس کی کارکردگی یہ بھی ہے کہ کوئی بھی شہری ’1915‘ پر فون کال کے ذریعے ٹریفک خلاف ورزی کی اطلاع دے سکتا ہے۔ اِس نظام کے تحت مذکورہ چھ ماہ میں 2ہزار457 شکایات بذریعہ فون کالز موصول ہوئیں جن پر فوری کاروائی اپنی مثال آپ اقدام ہے لیکن ٹریفک قواعد سے متعلق شعور‘ آگاہی‘ تربیت اور ذمہ داری شہری کے طور پر دی جانے والی خواندگی اگر کوئی ایک حکومتی محکمہ سرانجام دے رہا ہے تو اِس سے اجتماعی طور پر معاشرے کے فکروعمل میں تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ تمام حکومتی ادارے مربوط لائحہ عمل تشکیل دیں اور ایسی جامع حکمت عملی تشکیل دی جائے جس میں ہر سماج کی ہر اکائی دوسرے کے لئے اصلاح و تقلید کا نمونہ (مثال) بنے۔ اِس ضرورت کو انسداد تجاوزات کے علاوہ اِس ایک مثال سے بھی بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ پشاور کے طول و عرض میں صفائی کا نظام برقرار رکھنے پر سالانہ اربوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں لیکن شہریوں کی اکثریت صفائی ستھرائی برقرار رکھنے حتی کہ کوڑا کرکٹ (ٹھوس گندگی) مقررہ اوقات یا مقررہ مقامات پر رکھنے یا پھینکنے میں خاطرخواہ تعاون نہیں کر رہی‘ جس کی وجہ سے صفائی کی ہر کوشش کسی نہ کسی مرحلے پر ناکام و ناکافی ثابت ہو رہی ہے۔ توجہ طلب ہے کہ خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں 168 سرکاری محکمے یا اِداروں کے سالانہ اخراجات میں ملازمین کی تنخواہیں اور مراعات اِن کے اخراجات کا بڑا حصہ ہے لیکن یہ 168 ادارے آپس میں مربوط نہیں اور اگرچہ اِن کے قیام کا مقصد عوام کو سہولیات کی فراہمی اور حکومتی آمدنی میں اضافہ ہے لیکن ماسوائے ٹریفک جرمانوں دوسرا کوئی بھی حکومتی محکمہ سرکاری خزانے پر اپنے بوجھ کا حجم کم نہیں کر رہا۔ وقت ہے کہ ٹریفک قواعد سے اِنسداد تجاوزات اور صفائی کی صورتحال کے حوالے سے پشاور کو ”مثالی شہر“ میں تبدیل کرنے کے لئے ”مربوط کوششوں“ کا آغاز کیا جائے۔