ایک تو جس کے ہاتھ میں مائیک آ جائے وہ مشکل ہی سے مائیک واپس کرتا ہے۔پھر ہو سکتا ہے کہ وہ اس تقریب کا آخری مقرر ہو۔جس کے بعد کھانا تقسیم ہونا ہو۔ جو حاضرین ہوں وہ مشکل سے اس پروگرام میں گھنٹہ سے زیادہ بیٹھے ہوں گے۔پھر بعض تو جان کر دیرسے آئے ہوتے ہیں۔کیونکہ ان کو معلوم ہوتا ہے کہ لیٹ جائیں تو جلدی فارغ ہوں گے۔پھر پروگرامات بھی کون سا اپنے وقت پر شروع ہوتے ہیں۔ایک گھنٹہ پہلے کا وقت کارڈمیں لکھاہوتا ہے۔مگر تقریبات لکھے ہوئے وقت سے گھنٹہ بھر بعد ہی شروع ہوتی ہیں۔پھر آخری تقریر کرنے والے کا انتظار بہت شدت سے ہوتا ہے کہ یہ سٹیج پر جو تقاریر کا سلسلہ چل نکلا ہے وہ مائل بہ اختتام ہو۔کیونکہ بعض تو خاص کھانے کے لئے تشریف لاتے ہیں۔ اگر بعض تقریبات میں کھانا پینا درست نہ ہو اور واجبی ہو تو شرکت کرنے والے بھی احتیاط کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ اس قسم کے اجتماعات میں پے در پے شرکت کر کے گھاگ بن جاتے ہیں۔وہ گُرگِ باراں دیدہ ہو جاتے ہیں۔ہاں اگر مجبوری ہو کہ انھوں نے اپنے حصے کی سپیچ کرنا ہو تو وہ ضرور آئیں گے۔ لیکن بطور سامع بلائیں گئے ہوں
توخاصے حیلے بہانے سے دیرلگا کر آئیں
گے۔ہم میں عادت ہے کہ ہم لوگ تقریریں بہت کرتے ہیں۔پھر ہر مقرر یہ سمجھتا ہے کہ میں جو باتیں کررہاہوں وہ سامعین میں سے کسی کو ابھی تک معلوم نہ ہوں گی۔ پھر آخری مقرر کو میں نے اکثر یہ کہتے سنا ہے کہ میں آپ کا زیادہ وقت نہیں لوں گا۔کیونکہ مجھ سے پہلے بھی کافی مقررین نے اپنے خیالات کا اظہار تفصیل سے کیا ہے۔پھر ہنس کر فرماتے ہیں کہ میں آپ کے اور کھانے کے درمیان میں حائل نہیں ہونا چاہتا۔کیونکہ سردی بھی بہت ہے اور آپ نے گھروں کو بھی لوٹنا ہے۔پھر تقریب میں بھی اچھا خاصا وقت گزر چکا ہے۔ اس آخری مقرر کو معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ پروگرام اپنے وقت سے گھنٹہ لیٹ شروع ہوا اور پھر خاصی طوالت اختیار کر گیا۔ اس کی وجہ یہ کہ ہر مقرر نے اپنابھرپور
مقالہ پیش کیا اور زریں خیالات کے اظہار کرنے کو دوسروں کے دماغوں کا دہی بنا یا۔سو وہ یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ میں آپ کا زیادہ وقت نہیں لوں گا۔ مگر جب شروع ہوجائیں تو وہ پھول اور موتی بکھیرنے لگتے ہیں کہ حاضرینِ محفل کی جھولیاں تنگ پڑ جاتی ہیں کہ ہم یہ ہیرے موتی کس طرح اپنی تنگ دامنی میں سمیٹ لیں۔ کیونکہ میں نے بحیثیت سامع زندگی کا اچھا خاصا حصہ صرف کیا ہے۔ روسٹرم ایسی چیز ہے جہاں سے سامعین جو دکھائی دیتے ہیں وہ بہت فارغ لگتے ہیں۔ مقرر کو معلوم نہیں ہوتا کہ رات زیادہ ہوگئی ہے اور محفل میں خواتین بھی ہیں اور ساتھ معمر افراد بھی ہیں۔ صاحبان کوشش یہ ہونا چاہئے کہ جلد از جلد او رمختصر وقت میں بات کریں۔ زیادہ سے زیادہ پندرہ منٹ بہت بڑی چیز ہوتے ہیں۔ اسی میں اپنی بات ختم کردینا چاہئے۔ میں آپ کو یقین دلاتاہوں کہ پندرہ منٹ گزر جانے کے بعد سامعین و حاضرین کا مقرر کے ساتھ سمجھ بوجھ کارشتہ ختم ہوجاتا ہے۔باقی جو ٹائم آپ گزارتے ہیں وہ اپنا ہی قیمتی وقت ضائع کر تے ہیں۔ایک تو جو سٹیج سیکرٹری ہوتاہے وہ بھی اگلے کو تقریر کے لئے بلانے سے پہلے اس کی بے جا اور ضرورت سے زیادہ اتنی تعریف کردیتا ہے کہ اب تقریر کرنے والا اپنا فرض سمجھتا ہے وہ نظامت کرنے والے کی توقعات پر پورا اُترے۔پھر اپنی تقریر کرنے کی صلاحیت کو زیادہ بہتر بنائے۔ ہاں کوئی محبوب شخصیت ہو جس کے نام پر بلایا گیا ہو وہ اگر بول رہا ہو اور زیادہ بول جائے تو برا نہیں لگتا۔کیونکہ ”سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں۔ یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں“۔ جب زیادہ بول جانے والا مقرر بول لے اور اس کے بعد اپنی نشست پر براجمان ہو جائے تو اس کی باڈی لنگوئیج بتلاتی ہے کہ گویا اس نے عالمی تقریری مقابلے میں پہلا انعام جیت لیا ہے۔کسی تقریب سے پہلے بھرپور پلاننگ ہونی چاہئے۔ کس مقرر نے کتنی دیر بولناہے اس کو اتناوقت صرف کرنا چاہئے۔ پھر اگر حدکراس کرنے والوں کو سٹیج سیکرٹری روسٹرم کے اوپر پرچی رکھ دے کہ وقت ختم ہے تو وہ اس پر بھی برا مناتے ہوئے اس بات کو لے کر اور بحث شروع کردیتا ہے۔مقررین کی تعداد محدود ہوناچاہئے اور ان کو معلوم ہوناچاہئے کہ انھوں نے کتنے منٹ میں بات ختم کرناہے۔