قوموں کا عروج و زوال ہمیشہ سے تحقیق کا موضوع رہا ہے مورخین نے مختلف زاویوں سے اس مو ضوع پر روشنی ڈالی ہے ابن خلدون، ٹائن بی اور گبن کے حوالے اکثر کتا بوں میں ملتے ہیں کانجو ٹاون شپ سوات سے تعلق رکھنے والے پروفیسر کریم اللہ پو لیٹکل سائنس کے استاد اور سیاسیات کے ساتھ بین الاقوامی تعلقات کے سکالر ہیں مگر خود کو طا لب علم کہتے ہیں انہوں نے پہلی جلد میں اس بات کا جا ئزہ لیا ہے کہ قوموں کے عروج و زوال کے باب میں خا لق کا ئنات کا عمو می دستور کیا ہے؟ کن اوصاف کے حا مل کو عروج ملتا ہے؟ کن برائیوں کی وجہ سے قوموں کو زوال آتا ہے پہلی جلد میں قوم نو ح یعنی عاد اولیٰ، قوم عاد‘ ثمود‘ قوم نمرود‘ قوم لوطؑ، قوم شعیبؑ، قوم سبا، قوم فرعون اور بنی اسرائیل کے عروج و زوال کا جا ئزہ لینے کے بعد امت محمدیہؐ کا مکمل بیان آیا ہے دوسری جلد میں خا تم النبینؐ اور اس کی امت کے اوصاف، فضا ئل اور فرائض کے ساتھ آخری نبیؐ کی امت کو اکیسویں صدی میں پیش آنے والے چیلنجوں پر قلم اُٹھا یا گیا ہے۔ مصنف
نے دو بنیادی ماخذات قرآن اور حدیث سے استد لا ل کرتے ہوئے دور حا ضر کے چیلنجوں کا سامنا کرنے اور ان کے مقا بلے میں سر خرو ہو کر نکلنے کے راستوں کی نشان دہی کی ہے۔ آیا ت مبارکہ اور احا دیث شریفہ کی روشنی میں چار مو ٹی باتیں سامنے آتی ہیں۔قوموں کی چار اوصاف اللہ پاک کو پسند ہیں عقائد میں تو حید کا اقرار‘ معاملات میں عدل و انصاف، معاشرت میں انسانوں سے لیکر نبا تات اور جا نور وں تک ہر ایک سے حسن سلوک، انفرادی زند گی میں خاکساری، توا ضع اورانکساری۔ ان اوصاف حمیدہ کے مقا بلے میں 4برائیاں ہیں جو اللہ پا ک کو بہت ناپسند ہیں، پہلی برائی شرک ہے، دوسری برائی ظلم اور نا انصافی، تیسری برائی معا شرتی بداخلاقی ہے، چوتھی برائی نخو ت تکبر ہے باقی تما م اوصاف اور برائیاں ان آٹھ صفات کی وجہ سے پیدا ہو تی ہیں۔ مو جودہ زما نے میں سائنس اور ٹیکنا لو جی کا بڑا چر چا ہے پروفیسر کریم اللہ نے واشگاف الفاظ میں واضح کیا ہے کہ قوم عاد اور ثمود کے پا س بھی ٹیکنا لو جی تھی، بنی اسرائیل کے پاس بھی ٹیکنا لو جی تھی وہ لو گ پہاڑوں کو کا ٹ کر خوب صورت اور منقش گھر وں کی تعمیر کر تے تھے نمرود کی قوم ٹیکنا لو جی میں اتنی آگے تھی کہ انہوں نے منجنیق تیار کر لیا تھا جو مو جودہ زما نے کی توپ کا کام دیتی تھیں لیکن ان لو گوں نے اللہ تعا لیٰ کی مقرر کی ہوئی حدود کو پا مال کیا تو ان پر عذاب آیا کسی کو بجلی کی کڑک نے آپکڑا، کسی کو پا نی کے طوفان نے زیر و زبر کیا کسی کو آسمانی گرج نے نیست و نابود کیا کسی کو
آنے والوں کے لئے عبرت کا نمونہ بنا دیا گیا۔کتاب کی دوسری جلد میں عہد حا ضر کے فتنوں کا ذکر ہے، اس جلد میں فریضہ اقامت دین، مسلما نوں کے لئے صالح قیادت کی اہمیت، مغربی ممالک میں اسلا مو فو بیا کے اثرات کا مقا بلہ کرنے کی حکمت عملی، اورامریکی ایجنڈے کے تحت نیو ورلڈ آرڈر کے مضمرات کا جا ئزہ لیا گیا ہے، اسلا م میں جزا اور سزا کے تصور پر الگ باب قائم کیا گیا ہے کتا ب کے آخری باب میں ایک بڑے مغالطے کا رد آیا ہے مغا لطہ یہ ہے کہ دنیامیں عروج حا صل کرنے کا دارو مدار معا شی دولت اور فوجی طاقت پر ہے اس مغا لطے کو دور کر نے کے لئے قرآن و حدیث اور تاریخ کی روشنی میں ثا بت کیا گیا ہے کہ جس قوم نے عقیدہ تو حید سے منہ موڑا‘ عدل و انصاف کی جگہ ظلم اور جبر کو عام کیا، معاشرت میں برائیاں پھیلا ئیں اور تواضع کی جگہ تکبر اور نخوت کا وطیرہ اختیار کیا ان کی فو جی طاقت اور دولت اس قوم کو زوال سے نہ بچا سکی 686صفحات میں گویا تاریخ عالم کا خلا صہ ہے۔