یہ اصطلاح اب ہر جگہ استعمال ہوتی ہے۔جہاں کہیں پلاننگ کرنے کی ضرورت ہو تو ایک مہم کو نپٹانے کے لئے روڈ میپ بنایا جاتاہے۔ جس کا تعلق کسی سڑک کے ساتھ نہیں ہوتا۔گھر کا بجٹ بناناہو تو بھی روڈ میپ کہا جاتا ہے۔میرا مقصد سٹوڈنٹس سے ہے۔ان کو چاہئے کہ اپنی تعلیم حاصل کرنے کے لئے روڈ میپ بنائیں۔پھر اس کے مطابق چلتے جائیں۔ جب تک وہ ذہن ہی میں سہی کوئی نقشہ نہیں بنائیں گے وہ کامیابی کیسے حاصل کریں گے۔ اب اتنا تو پلاننگ میں ہو کہ میں نے بڑے ہو کر بننا کیا ہے۔ایک فیلڈ کوچن لیں اور پھراس فیلڈ میں کس طرح آگے بڑھنا ہے اسی نقشہ کے مطابق قدم اٹھائیں۔میرے ذہن میں یہ سوال اس وقت پیدا ہوا جب مجھ سے ایک بچی نے پوچھا کہ میں بڑے ہو کر کیا بنوں۔مجھے ہنسی آئی۔ میں نے کہا آپ کوشوق کس کام ہے۔تم پائیلٹ بن سکتی ہے ہو ایئر ہوسٹس وکیل بن سکتی ہو مجسٹریٹ بھی پروفیسر اورسکول میں ٹیچر بھی۔حتیٰ کہ جوجو فیلڈہمارے گردوپیش میں موجودہے سب میں تمھاراجانا ہو سکتا ہے۔مگر اس کے لئے تم نے پہلے سے سوچ بچار کرنا ہے۔اس مقصد کوحاصل کرنے کی خاطر اپنی محنت کا رخ حسبِ ضرورت بدلناہوگا۔ہمارے ہاں لڑکوں بالوں تک کا کوئی مقصد نہیں کہ کیا تعلیم حاصل کی جائے اور کیسے حاصل کی جائے۔شوق توایک اور فیلڈمیں جانے کا ہوتا ہے مگر اس کے مطابق نمبر حاصل نہیں کرپاتے۔اس لئے سال بچانے کی غرض سے ان کو اس میدان کا انتخاب کرنا پڑتا ہے جو ان کی پسند میں شامل نہیں ہوتا۔اس لئے وہ ناپسندیدہ فیلڈ میں داخلہ لیتے ہیں۔مگر نوکری کے دوران میں ساری عمر ان کے دل میں حسرت باقی رہ جاتی ہے کہ میں بننا کیا چاہتاتھا اور کیابن گیا۔ کوئی سی ایس ایس کر کے بھی اداکاری کے شوق میں ہائی فائی نوکری کو چھوڑ کر ٹی وی اور فلم میں چلا جاتا ہے۔اس قسم کے کئی نام میری انگلیوں میں اپنے آپ کو لکھوانے کے لئے متحرک ہیں۔کتنے ہی اداکار بننا چاہتے تھے اور اکاؤنٹس کی فیلڈ میں افسر بن گئے۔ مگر میں مانتاہوں ان کو جو اگر کچھ بننا چاہتے تھے تو دلکش آفرز موجود ہونے کے باوجود اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹے اور اپنے روڈ میپ کے مطابق چلتے رہے۔مثلاً سرکاری نوکری کے انٹرویو میں ان سے پوچھا گیا کہ آپ اگر انگریزی کے پروفیسر نہ بنے تو کیا آپ مقابلے کے امتحان میں شرکت کریں گے۔ اس پر امیدوار نے کہا میں نے اگر سی ایس ایس کرناہوتا تو میں دس سال سے پرائیویٹ ادارے میں انگریزی کالیکچرار نہ ہوتا۔انٹر ویو لینے والے اس کی اس بات سے بہت متاثرہوئے۔اندازہ ہوا کہ یہ امیدوار اپنے مقصد میں سنجیدہ ہے۔سو وہ منتخب کر لیا گیا۔خاندان میں بھی کسی تعلیم یافتہ سینئر رشتہ دار کا ہونا بہت ضروری ہے۔کیونکہ وہ کسی طالب علم کو جو ان سے مشورہ لے یا اگر مشورہ نہ بھی لے تو وہ خود اس عزیز کو سمجھائے کہ بیٹا آپ نے جو راہ اختیار کی ہے وہ آپ کے ماحول اور باہر کی دنیا کی فضا کے مطابق نہیں ہے۔آپ کو اس فیلڈسے الگ ہو جانا چاہئے۔ پھر یہ روڈمیپ ترتیب دینا ہوتا ہے۔میں نے اگر جو بھی بننا ہے پھر اس کے مطابق سینیئر لوگوں سے مشورہ کرناچاہئے اور ان کے بتلائے ہوئے راستے کے مطابق احتیاط سے قدم اٹھانا چاہئے۔تاکہ اپنی منزل تک بندہ آسانی سے پہنچ جائے۔ہمارے ہاں اس قسم کی سمجھ بوجھ کا بہت زیادہ فقدان ہے۔کسی سے پوچھو تم بڑے ہو کر کیا بنو گے اس کو پتا ہی نہیں ہوتا۔کہتے ہیں بس جی جو بھی بن گئے بن جائیں گے۔پھرحقیقت بھی یہی ہے کہ ہمارے ہاں جس نے جو نہیں بننا ہو تا وہ بن جاتا ہے۔ہمارے ہاں ستر فی صد لوگ اتفاقاً وہ بن جاتے ہیں جس کی انھوں نے تعلیم حاصل نہیں کی ہوتی۔ایک ڈاکٹر پر حکومت کا کتنا خرچ آیا ہوتا ہے اور اسی طرح انجنیئر بننے پر بھی اس کا اپنا اور پھر حکومت کا بہت سا خرچہ اٹھتا ہے۔لیکن وہ ایم بی بی ایس کر کے دوسری فیلڈ میں چلے جاتے ہیں۔ ان کو چاہئے کہ وہ مریضوں کو فائدہ دینے کی غرض سے اپنے میدان میں اپنے عزم پرقائم رہیں۔ہمارے ہاں بہت سے لوگ کیا بننا چاہتے تھے اور مس فٹ ہوکر دوسرے میدانوں کا رخ کرلیتے ہیں۔ہزاروں طالب علم ہیں جن کو اردو ادب کی طرف کوئی لگاؤ نہیں ہوتا مگر ایف اے میں نمبر کم آنے سے ان کو اگر کہیں اور داخلہ نہ ملے تو وہ اردو ادب کی طرف آ جاتے ہیں۔ پھر اسی دنیا کے ہوکر رہ جاتے ہیں۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کو شعر سمجھنا تو چھوڑ صرف شعر کو اس کی لے اور موسیقیت سے پڑھنا بھی نہیں آتا۔ ہر چند وہ بعد میں محنت سے وہ مقام حاصل کر بھی لیتے ہیں۔مگر کتنا اچھا ہو کہ جس راستے پر آپ نے جانا ہے اس میں اگر سخت مقام آتے ہیں تو اس کے لئے آپ نے پہلے سے تیاری کررکھی ہو ایک روڈ میپ بنا ہوا ہو تاکہ آپ کو اپنے گول کو حاصل کرنے کے لئے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں نہ مارنا پڑیں۔خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کے گھرانوں میں جہاں دیدہ تعلیم یافتہ افراد ہوتے ہیں۔جو کسی کو روڈ میپ بنا کر دیں اور پھر اس پر نگاہ رکھیں تاکہ اس سے غلطی ہو تو وہ اس کو راستے میں لڑکھڑانے سے روک لیں۔ کیونکہ مسافر میں اور جو منزل پر پہنچ چکے ہوتے ہیں بہت فرق ہوتا ہے۔کسی دوسرے کا تجربہ بھی تو اس کے کام آتا ہے جس کو راستے کے گڑھوں اور پتھروں پرچلنے کا سلیقہ معلوم نہیں ہوتا۔ا س لئے جو طالب علم ہے اس کو روڈ میپ بنانا چاہئے تاکہ وہ راستے کی مشکلات پرقابو پا لے۔پھروہ اپنی منزل تک آسانی سے پہنچ جائے۔ اس کے لئے بہت پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔کہیں خودپڑھنا ہے تو کہیں ٹیوشن کرنا ہے۔پھردوسرے دوستوں کے ساتھ مل کر جائنٹ سٹڈی کرناہوگی۔اس کے علاوہ ہم جماعت اور ذوق و شوق والے سٹوڈنٹس کا وٹس ایپ گروپ بنانا ہوگا تاکہ مطالعہ کے اشتراک سے جو مسائل حل طلب ہیں وہ دوسرے ذہین سٹوڈنٹس کی وجہ جلد حل ہو جائیں۔ منزل کا تعین کرنا پھر اس کے لئے سرکاری اشتہارات میں اس تعلیم کے برابر آسامیوں کے نکلنے پربھی نگاہ رکھنا ہوگی کہ آیا میں جو ڈگری لینا چاہتاہوں آگے چل کر اس کی کوئی وقعت بھی ہے یا میں یونہی وقت ضائع کروں گا۔