یہ امر باعث تشویش ہے کہ پاکستان میں تپ دق کی بیماری ایک مرتبہ پھر سر اٹھا رہی ہے اور وطن عزیز اس موذی مرض کے زیادہ متاثرہ ممالک میں پانچویں نمبر پر ہے ایک دور تھا کہ جب یہ مرض لاعلاج تھا اور ہمارے صوبے میں ڈاڈر اور پنجاب میں ساملی کے مقامات پر ٹی بی سینی ٹوریم قائم تھے کہ جہاں ٹی بی کے مریضوں کو عام آبادی سے علیحدہ رکھا جاتا جہاں ان کے طویل علاج کا سلسلہ جاری رہتا‘پر سائنس کے کمالات دیکھئے کہ جب پینسلین ایجاد ہوئی تو ٹی بی کا جیسے خاتمہ ہو گیا ٹی بی کے مریضوں کا علاج بھی قدرے آسان ہو گیا‘کم و بیش ڈیڑ ھ سال کے علاج کے بعد مریض صحت یاب ہونے لگتا البتہ جو مریض
ادویات کے استعمال میں سستی کرتا تو اس کا علاج مشکل ہو جاتا اسے پھر ابتدا سے ادویات کا استعمال کرنا پڑتا‘ اس لئے یہ انکشاف قابل افسوس ہے کہ آج کل ہر سال 6 لاکھ کے قریب ٹی بی کے کیسز سامنے آ رہے ہیں اور 48 ہزار مریض موت کے منہ میں جا رہے ہیں‘بلا شبہ غربت اور مناسب خوراک کی کمی اس چھوت کی بیماری کے پھیلا ؤکی بڑی وجہ ہے اس مرض میں عام طور پر ہاتھوں سے کام کرنے والے جسمانی طور پر کمزور افراد اور محنت کش ہی مبتلا ہوتے ہیں جو غربت کی وجہ سے نہ تو مناسب خوراک کھا سکتے ہیں اور نہ ہی ادویات خریدنے کے لئے ان کی جیب میں پیسے ہوتے ہیں اور چونکہ یہ چھوت کی بیماری ہے یہ پھیلتی بھی بڑی تیزی سے ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کا یہ بیان بڑا دانش مندانہ ہے کہ امن سے رہنا چاہتے ہیں تو جنگ کے لئے بھی تیار رہنا ہوگا‘ پاکستان کے اٹیم بم بنانے
والوں کے خلاف بھلے کوئی بھی کتنی باتیں کیوں نہ کرے‘پر یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اگر ہم نے یہ ہتھیار نہ بنائے ہوتے تو آج بھارت ہمیں کچاکھا گیا ہوتا‘ خدا بھلا کرے ان ارباب اقتدار کا کہ جو دور اندیش تھے اور انہوں نے امریکہ کے پریشر کے باوجود پاکستان کا اٹیمی پروگرام ترک نہ کیا اور اٹیم بنا کر ہی دم لیا۔ہماری افواج پاکستان کے تحفظ کی ضامن ہیں جس کا ان کی طرف سے عملی مظاہرہ کیا جاتا رہتا ہے شہادتوں کے سفر کا سلسلہ بھی جاری ہے جس میں جوانوں کے ساتھ ساتھ آفیسر بھی شامل ہیں اس لئے انہیں جدید ترین اسلحہ سے لیس رکھنا ہماری ترجیحات میں ہمیشہ شامل ہونا چاہئے۔