اپریل دوہزار بائیس: وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کی سربراہی میں اعلیٰ سطحی اجلاس کے دوران جن 3 بنیادی نکات پر اتفاق کیا گیا اُن میں پہلا نکتہ ’پشاور سیف سٹی پراجیکٹ‘ نامی منصوبے کی اہمیت اور ضرورت تھی۔ دوسرا نکتہ اِسے مرحلہ وار مکمل کرنے سے متعلق تھا اور اِسی کے بارے میں اجلاس میں ایک جائزہ رپورٹ بھی پیش کی گئی جس کے مطابق پہلے مرحلے میں حیات آباد کا انتخاب کیا گیا جہاں کے 96 مختلف مقامات کی 500 ’کلوز سرکٹ ٹیلی ویژن (سی سی ٹی وی)‘ کیمروں کی مدد سے نگرانی کی جائے گی اور اِن کیمروں کو نگرانی کے مرکزی دفتر سے منسلک کرنے کے لئے 56 کلومیٹر طویل ایک خاص قسم کی تار (آپٹیکل فائبر) تار بچھائے جائے گی جبکہ تیسرا نکتہ یہ تھا کہ منصوبے کی تکمیل کے لئے درکار تمام وسائل صوبائی حکومت فراہم کرے گی۔نومبر دوہزار بائیس: ’پشاور سیف سٹی پراجیکٹ‘ سے متعلق اجلاس میں اِس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ منصوبے کی تکمیل میں تاخیر کی وجہ سے اِس کی لاگت ڈیڑھ ارب روپے سے بڑھ کر دو ارب روپے ہو چکی ہے ذہن نشین رہے کہ پشاور کے داخلی و خارجی راستوں اور شہر کی اہم شاہراؤں‘ تجارتی مراکز اور بازاروں کی چوبیس گھنٹے کیمروں کے ذریعے نگرانی کا فیصلہ مالی سال 2009-10ء میں اس منصوبے کے لئے رقم مختص کرنے سے کیا گیا تھا جس کے بعد سے ہر چند سال بعد اِس کی لاگت پر نظرثانی کی جاتی ہے اور چونکہ اِس منصوبے کے لئے مالی وسائل خرچ بھی کئے جا چکے ہیں اِس لئے تکمیل ضروری ہے اِس منصوبے کے اخراجات ہر سال بڑھ رہے ہیں رواں مالی سال 2022-23ء کے صوبائی بجٹ میں ایک مرتبہ پھر ’سیف سٹی منصوبے کے لئے 50 کروڑ (500ملین) روپے مختص کئے گئے لیکن گزشتہ چھ ماہ سے زائد عرصے میں خاطرخواہ عملی کام نہیں ہوسکا جس سے یہ منصوبہ تکمیل کے قریب پہنچے اگر گزشتہ چند برس کی بات کی جائے تو ’سیف سٹی منصوبے‘ پر لاگت پندرہ ارب سے بڑھ کر بیس ارب روپے ہو چکی ہے توجہ طلب ہے کہ پشاور نہ صرف جرائم پیشہ عناصر بلکہ دہشت گردوں کے نشانے پر بھی رہا اور ماضی میں اہل پشاور نے ملک کے کسی بھی دوسرے شہر کی نسبت زیادہ جانی و مالی نقصانات برداشت کئے ہیں‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ’فرنٹ لائن سٹی‘ کا کردار ادا کیا ہے یہی وجہ تھی کہ عوامی نیشنل پارٹی کے دور حکومت میں صوبائی کابینہ اراکین نے چین کے تعاون سے پشاور کو محفوظ بنانے کے لئے ’سیف سٹی پراجیکٹ‘ شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور اِس منصوبے کی اہمیت و ضرورت کے بارے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اعلیٰ حکام گھنٹوں دلائل دیتے ہیں کہ کس طرح اگر کلوزسرکٹ کیمروں کی مدد سے نگرانی کی جائے تو اِس سے دہشت گردی اور جرائم میں نمایاں کمی آ سکتی ہے۔ اِس منصوبے میں مجموعی طور پر 6 ہزار کیمرے نصب ہونا تھے جن کے لئے ساڑھے آٹھ سو مقامات کا انتخاب کرنے جیسی محنت بھی کی گئی اور گیارہ کنال اراضی مختص کرتے ہوئے سنٹرل کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم بنانے اور اِس پر فوری ردعمل کے لئے تربیتی خاکے بھی ترتیب دیئے گئے لیکن یہ تمام کاغذی کاروائی اُس وقت تک سودمند (کارآمد) نہیں ہو سکتی جب تک کہ عملی اقدامات نہ کئے جائیں‘ ذہن نشین رہے کہ جس وقت سیف سٹی منصوبے کے حوالے سے حکمت عملی تیار کی جا رہی تھی اُس وقت جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق سال دوہزارچار سے دوہزارتیرہ کے درمیان پشاور میں چھ سو دہشت گرد واقعات ہوئے جن میں تین ہزار سے زائد اموات ہوئیں‘اس لئے سیف سٹی کے نام سے منصوبے کو فوری طور پرحتمی شکل دی چاہئے۔