مغلیہ دور کے پشاور کے حاکم نواب ناصر خان کی پوری ایک تاریخ ہے جو مختلف تاریخ دانوں نے اپنی اپنی کتابوں میں بیان کی ہے مگر مجھے کتابوں سے زیادہ اپنی خاندانی روایات پر بھروسہ ہے کیونکہ میں جب چھوٹا تھا اور والد صاحب کے ساتھ اس مقبرہ کے پاس سے گزرتا تھا تو مجھے والد مرحوم فرماتے کہ یہ نواب ناصر خان کی قبر ہے پھر وہ مجھے اس مقبرہ کی مختصر سی تاریخ کے بارے میں آگاہ کرتے‘میں سنی ان سنی کردیتامگر وہ باتیں میرے حافظہ میں محفوظ رہ گئیں ظاہر ہے کہ جیسا وہ اپنی اولاد کو بتلارہے تھے ویسا ہی ان کو میرے دادا نے بتلایا ہوگا پھر فقط ہم تک تو معلومات محدود نہیں اس چوک ناصر خان میں رہنے والی پچھلی نسل کا ہر آدمی جانتا ہے کہ یہ مزار کس کا ہے۔یہ حاکم پشاور تھا جس کے پاس لڑائیاں لڑنے کے ساز وسامان ہوتا تھا جو وہ یہاں کے مختلف علاقوں میں رکھتا تھاجہاں ہماری جائے پیدائش ہے بلکہ میرے والد اورمیرے دادا بھی جہاں پیدا ہوئے اس گلی کا نام محلہ شاہنچہ باشی ہے یہ جس بازار میں واقع ہے اس کا پرانا نام لکڑ منڈی ہے۔تھوڑا آگے جائیں تو کوچی بازار کے سٹارٹ میں محلہ فیل خانہ نواب ناصر خان ہے۔فارسی میں فیل ہاتھی کو کہتے ہیں۔پھر شاہنچہ کا مطلب چھوٹی توپ ہے یہ اس زمانے میں نوابوں کے لڑنیکے کام آنے والی چیزیں تھیں‘شاہنچہ باشی کا مطلب یہ ہوا کہ اس جگہ میدان میں نواب کی توپیں رکھی جاتی تھیں کیونکہ باشی کا مطلب باش سے ہے یعنی رکھنا‘ یہ قبر عین شہری علاقے میں واقع ہے جہاں کوئی اور قبر نہیں ظاہر ہے کہ یہ علاقہ اس زمانے میں خاص مقام ہوگامینا بازار سے نکل کر کوچی بازار کی طرف جائیں تو چند قدم کے فاصلے پربائیں طرف گلی میں یہ مزار ایک اور گلی میں پوشیدہ طور پر واقع ہے۔یہ بلیوں کا مسکن تھا جہاں نہ کوئی چراغ روشن تھا نہ کوئی پروانہ آتاتھا‘میں نے ہوش سنبھالا تو اکثر کھڑے ہوکر اس قبرکو غور سے دیر تلک دیکھا کرتا۔ میں گھر سے نکل کر یہاں سے گذرتا گورنمنٹ کالج پشاور اپنی ڈیوٹی کے لئے جاتا اور او رپیدل ہی اسی راستے سے مینا بازار او رکریم پورہ پھرہشت نگری او رپھر کالج پہنچ جاتا‘بائیس سال قبل کی بات ہے میں نے اندازہ لگایا کہ اس قبر کو مسمار کرنے کی کوشش ہے یا پھر اس کو لنٹرن نیچے چھپا کر ا س پر نئی تعمیر کا ارادہ ہے۔میں نے ایک دن اس کام کابیڑا اٹھایااور وہا ں قبر کے ساتھ کے مکانات کے دروازے کھڑکھڑ ا کر وہاں کے مکینوں کو اس خطرے سے آگاہ کیا۔بلکہ ان کو تو پتا بھی نہ تھا کہ اس قبر کی کیا تاریخ ہے ایک گھر والے نے کہا یہ ناصر بابا کی قبر ہے جو راتوں کو اس محلے میں گھومتا ہے۔بہر حال میں نے اس آگاہی مہم کی ابتدا ء کی پھر ایک دن خیال آیاتو میں نے دو بڑے سائن بورڈ بنا کر ایک اس گلی کے باہر لگا دیا اور دوسرا گلی کے اندر مقبرہ کے باہر نصب کردیا۔ اس پرلکھوایا ”مقبرہ نواب ناصر خان مغلیہ حاکم ِ پشاور“ پھر اپنے پھوپھی زاد فضلِ منان سے کہا۔ وہ کمیٹی پشاو رمیں الیکٹریشن ہیں اور بانس کی سیڑھی ہر وقت ان کے پاس دستیاب ہوتی ہے تاکہ وہ سٹریٹ لائٹس کو درست رکھ سکیں۔ ان کی مدد سے میں نے یہ کام سرانجام دیا۔پھر اس کے بعد جب وہاں سے لوگ گزرنے لگے تو ان کو احساس ہوا اور یہی آگاہی پھیلنا شروع ہوئی پھر آہستہ آہستہ یہاں کے مزار کی رونق بڑھنے لگی۔