فائر بریگیڈ کا موثر نظام

وطن عزیز میں آ ے دن سرکاری اور نجی املاک کو آ گ لگنے کے واقعات اب تو معمول بن چکے ہیں پہلی بات تو یہ ہے کہ عمارتیں کھڑی کرنے وقت ان کے مالکان ان حفاظتی اقدامات اپنانے کا سوچتے ہی نہیں کہ آ گ لگ جانے کے صورت میں وہ اپنی پراپرٹی اور اس میں قیام پذیر افراد کو کیسے بچائیں گے دوسری بات یہ ہے کہ میونسپل ادارے عمارتوں کی تعمیر کی اجازت دیتے وقت اس بابت کی تسلی بالکل نہیں کرتے کہ آگ لگ جانے کی صورت میں ان عمارتوں میں رہائش پذیر افراد کو کیسے بحفاظت وہاں سے باہر نکالا جاے گا۔ تیسری بات یہ ہے کہ کسی بھی میونسپل کمیٹی کے پاس نہ تو آگ بجھانے کا تربیت یافتہ عملہ موجود ہے اور نہ ہی سازو سامان یعنی کہ equipment اور تجربہ یہ بتاتا ہے کہ جب ان سے آ گ نہیں بجھتی تو وہ لامحالہ ائر فورس یا کسی اور ادارے سے گزارش کر کے ان کی امداد مانگتے ہیں  وقت آ گیا ہے کہ ملک کا ہر میونسپل ادارہ اپنا ایک منظم فائر بریگیڈ سسٹم بنائے اور اسے جدید ترین بنیادوں پر استوار کرے امریکہ کی کئی ریاستوں میں تو شہروں کے میئرز mayors نے فوج کی طرز پر اپنے فائر بریگیڈ سسٹم تشکیل دئیے ہوئے ہیں ہم ان کے ہاں کام کرنے والے فائر بریگیڈ سسٹم کی طرز پر وطن عزیز میں بھی ایک موثر فائر بریگیڈ سسٹم مرتب کر سکتے ہیں۔ایک حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دنیا بھر میں نوجوانوں کا مختلف صوتی آلات کا غیر محفوظ استعمال ان کی قوت سماعت کو بری طرح متاثر کر سکتا ہے۔ سماعت کے نقصان کا خطرہ شور کی بلندی، دورانیے اور ارتعاش پر منحصر ہے۔ اس بین الاقوامی تحقیق میں شامل ایک ماہر کے مطابق مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ سماعت کے غیر محفوظ طریقے نوجوانوں میں عام ہیں، جس کی وجہ سے ایک ارب سے زائد نوجوانوں کو مستقل سماعت سے محرومی کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ شور کی وجہ سے قوت سماعت کو پہنچنے والا نقصان ناقابل واپسی ہے اور ہمیں سماعت کے نقصان کو روکنے کے لیے حکمت عملی پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔اس مطالعے میں اندازہ لگایا گیاکہ 24 فیصد بالغ نوجوانوں کو سمارٹ فونز اور لیپ ٹاپ جیسے ذاتی آلات سے زیادہ شور کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے یہ بھی اندازہ لگایا کہ 12 سے 34 سال کی عمر کے 48 فیصد لوگوں کو موسیقی کے مقامات پر  شورکی غیر محفوظ سطح کا سامنا کرنا پڑا۔ مطالعے کے دائرہ کارکو عالمی آبادی تک پھیلاتے ہوئے یہ اندازہ لگایا گیا کہ  دنیا بھر میں ایک ارب سے زیادہ افراد کو سننے کی عادتوں سے سماعت کے مسائل پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔اگرچہ اس مطالعے میں کا فوکس  نوجوانوں کو سماعت سے متعلق لاحق خطرات پر تھا، تاہم تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ہر عمر کے لوگوں کو ان کی سننے کی عادتوں سے سماعت کے نقصان کا خطرہ ہوتا ہے۔ ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ انیس سے انتیس  سال کی عمر کے لوگ ہفتے میں اوسطاً سات گھنٹے آٹھ منٹ ہیڈ فون استعمال کرتے ہیں جبکہ  تیس سے انچاس سال کی عمر کے لوگ ہفتے میں ساڑھے پانچ گھنٹے اس کا استعمال کرتے ہیں۔لوگ اکثر آلات پر 105 ڈیسیبل تک آڈیو سنتے ہیں اور تفریحی مقامات پر آواز کی اوسط بلندی کی سطح 104 سے 122 ڈیسیبل تک ہوتی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے رہنما خطوط کے مطابق ہر ہفتے دس سے پندرہ منٹ تک ان سطحوں پر شور کی آوازیں سننے کی محفوظ سطح سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں اس حوالے سے آگاہی کی کمی ہے جس سے بڑے پیمانے پر نوجوان اور بچے سماعت کی قوت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔