موسم کی خنکی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ہر نئے روز ٹھنڈکی شدت میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ابھی تو دسمبر اور جنوری جیسے برفیلی ہواؤں والے مہینے باقی ہیں۔مگر ابھی سے نزلہ کھانسی زکام کے مریضوں میں اضافہ ہونے لگا ہے۔کوئی کھانس رہا ہے او رکوئی شوں شوں کرتا پھرتا ہے۔گلے میں انفیکشن بھی زیادہ ہے۔جوشاندوں پر زور ہے۔دواؤں کی دکانیں جو ہمہ وقت آبادہوتی ہیں ان پر ان دنوں رش زیادہ ہونے لگا ہے۔جس کو اپنے بخار کا بولو وہ اپنی بیماری کی کتھا سنانے لگتا ہے۔اپنی بولی تو وہیں منہ میں رہ جاتی ہے او رسامنے والے کے دکھ کا اندازہ ہونے لگتا ہے۔سموگ کا راج صبح شام ہے۔پھر اب سے تو نہیں۔ مہینہ بھر سے یہ کیفیت ہے۔شام گئے اندھیرے میں لگتا ہے کسی نے بہت بڑی آگ تاپ رکھی ہے اور اس پر ہاتھ گرم کئے جاتا ہے۔ سوچتے ہیں کہ یہ شام دھوا ں دھواں کیوں ہے۔مگرغور کرنے پر معلوم ہوتاہے کہ یہ تو دھند ہے۔اب اس کو دھند کہیں یا سموگ کہیں اس کا بھی تو بھی حال معلوم نہیں۔کیونکہ پہلے نام دھند تھا اور قابلِ فخر تھا کہ ہم دھند میں سانس لے رہے ہیں مگر سیانوں نے بتلایا کہ یہ دھند کا راج نہیں یہ تو سموگ کی آگ ہے۔جو صحت کے لئے اور سانس کے لئے حد درجہ نقصان دہ ہے۔شام گئے جب کسی گاڑی کی لائٹ جلتی ہوئی آتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سموگ ہے مگر صبح سویرے یہ سموگ مگر نہیں دھند زیادہ محسوس ہوتی ہے۔لیکن شہری اور بند علاقوں کے مکینوں کو یہ نظارے ڈھونڈنے کے لئے شہر کی دم بخود فضا سے باہر نکلناہوگا۔ سینوں میں ریشہ کی خرخراہٹ زیادہ ہونے لگی ہے۔کوئی بھی بیماری ہو بچوں کے دفاعی نظام جسے کورونانے نیا نام دیا ہے امیون سسٹم کو خراب کرتی ہے۔ان پرہلکی سی بیماری بھی زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔لہٰذا ان دنوں اپنے آپ کو بچائیں اور گرم کوٹی وغیرہ کا چلن عام کریں۔مگر بچوں کو زیادہ تر بچاناہوگا۔ ذرا ایک بارش اور ہوجائے تو سردی نے سمجھویہ محاذ فتح کر لیا۔ نوجوان لڑکے بالے کالج کو جاتے ہوئے صبح سویرے نظر آتے ہیں جنھوں نے کوئی سویٹر نہیں پہنا ہوتا۔ جوانی تو دیوانی ہے۔کیونکہ گاہے سردی محسوس ہو تی ہے اور گھنٹہ بھر دھوپ لگے تو گرمی کا احساس ہوتا ہے۔لہٰذا اس دھوپ چھاؤں کی کیفیت میں آدمی کو دھوکا ہوتا ہے۔رات کو سوئے تو شام گئے کی ٹھنڈی ہوا کی وجہ سے سردی زیادہ ہونے پر کمبل کو خوب کھینچ تان کر لے لیتے ہیں۔مگر رات گئے جب گرمی لگتی ہے تو نیند ہی میں کمبل پاؤں سے جھٹک کردور پھینک دیتے ہیں۔ایسے میں انجان کیفیت میں نہ معلوم طریق سے بندہ صبح اٹھے تو بیمار ہوا ہوتا ہے۔پھر سوتے وقت جرابیں ضرور پہنیں اس پر نہ جائیں کہ سردی کم ہے۔رات کو کبھی خنکی زیادہ ہو جاتی ہے تو دھوکا سا ہوجاتا ہے۔”تیرے آنے کا دھوکا سا رہا ہے۔دیا سا رات بھر جلتا رہاہے“صبح سویرے سکول کی سمت جانے والی موٹر سائیکل کی بچوں والی سواریوں سے بھی گذارش ہے کہ بچوں کو آگے ٹینکی پر نہ بٹھائیں بلکہ اپنے پیچھے بٹھائیں کیونکہ گرم کوٹی میں یہ احساس ہوتا ہے کہ اب سردی نہیں مگر بچوں کے دفاعی نظام بڑوں کی طرح کام نہیں کرتے۔جس کو دیکھو بچوں کی ناک ٹپک رہی ہے۔یہ تو جب کچھ دن اور گذرے یا ایک آدھ بارش ہو گئی چھینٹے پڑے تو پھر جاکر سردی نے ماحول کو مکمل یرغمال کرناہے اور پھر زمین زادوں کو خوب بوغمال کرنا ہے۔ پھر ڈاکٹروں حکیموں کی دکانوں میں اوربھی رش ہو جائے گی۔ ماں کہے گی سینہ گرم رکھ بیٹا اور دوسرے گھرمیں امی کہے گی بیٹا ماتھا گرم رکھو ٹوپی پہنو کسی گھرمیں اماں پکارے گی ہائے پاؤں تمھارے تو مولی ہو گئے ہیں جرابیں کیوں نہیں پہنتا تو۔پھر کسی گھر کے صحن سے ممی پکارے گی ہائے کس طرح گلی کی اس ٹھنڈمیں نالیوں میں ہاتھ مارکر بال نکالتا ہے اور کرکٹ کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گیا ہے۔ذرا ٹوپی پہن کر گھوما کر۔مگر بچوں کو اپنی جان کی پروا نہیں ہوتی۔ ان کو تو قدرت بچاتی ہے۔ورنہ تو پکے پکے اپنی جان کے دشمن ہوتے ہیں۔ مما کے سامنے تو ٹوپی پہن لیں گے مگر گلی میں جاکر اتار دیں گے۔ یوں کھیل کھیل میں گرم سرد ہو جائیں گے تو کسی کو پرواہ بھی نہیں ہوگی۔