دیکھا جائے تو برازیل اور سربیا کا میچ جس طرح کھیلا گیا اس کے بعد برازیل کی 0-2 کی کامیابی نے حیران کیا۔ کیونکہ پورے کھیل میں غالب نظر آنے والی برازیل کو جتنے مواقع ملے اس حساب سے اسکور کم از کم 0-4 تو ہونا چاہئے تھا۔ لیکن جو دباؤ برازیل نے حریف ٹیم پر بنائے رکھا اس سے ثابت ہوا کہ اسے ایونٹ کی فیورٹ ٹیم قرار دیا جانا کچھ غلط بھی نہیں ہے۔نوجوان کھلاڑی وینیشیئس جونیئر کا یہ پہلا عالمی کپ تھا اور ان کی کلب کارکردگی کی وجہ سے اس میچ میں مجھ سمیت بہت سے لوگوں کی نظریں ان کی جانب تھیں۔ انہوں نے اگرچہ گول تو کوئی نہیں کیا مگر دونوں ہی گولز کو انہوں نے ہی اسسٹ کیا۔ ساتھ وہ خود بھی گول مارنے کی کوشش میں نظر آئے اور نوجوان کھلاڑیوں کی شاید یہی سب سے بڑی خصوصیت ہے کہ وہ رک کر کھیل کھیلنا نہیں جانتے۔کل کے برازیلی ہیرو ریچارلیسن تھے۔ ابھی ٹورنامنٹ کا آغاز ہوئے زیادہ دن نہیں ہوئے لیکن سربیا کے خلاف ریچارلیسن کے دوسرے گول کو ابھی سے ہی گول آف دی ٹورنامنٹ قرار دیا جارہا ہے۔ اتنی جلدی فیصلہ تو نہیں کرنا چاہئے لیکن بلاشبہ گول بے مثال تھا اور ایسے گول فٹبال میں بہت کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔برازیلی اسٹار نیمار کے کھیل کے دوران بار بار گرنے کی روایت سے شاید ہی کوئی ناواقف ہو۔ سربیا کو نیمار کو گرانے پر 9 بار فاؤلز دئیے گئے بلکہ ایک فاول دیکھ کر تو ہنسی بھی آئی کہ جب نیمار کو روکنے کے لیے سربیا کے کھلاڑی نے ان کی شرٹ ہی اتار دی۔لیکن انجری کے سبب نیمار کا باہر جانا ناخوشگوار تھا۔ امید کرتے ہیں کہ وہ جلد بہتر ہوجائیں گے اور برازیل کے لیے اگلا میچ کھیلیں گے۔اگر گھانا اور پرتگال کے میچ کی بات کی جائے تو گھانا کی جانب سے گول سکور کرنا مشکل ہی لگ رہا تھا اور اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ اب تک اس ایونٹ میں کوئی بھی افریقی ٹیم گول سکور نہیں کر پائی مگر گھانا نے سب اندازوں کو غلط ثابت کردیا۔کرسٹیانو رونالڈو نے پینلٹی پر گول مار کر 5 فیفا ورلڈ کپ میں گول سکور کرنے کا ریکارڈ قائم کردیا جس کے بعد ایک بار پھر رونالڈو کے بہترین کھلاڑی ہونے کی چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں۔ گھانا کے کوچ، پینلٹی کے حوالے سے سخت برہم نظر آئے۔ حتی انہوں نے یہ تک کہہ
دیا کہ رونالڈو کو پینلٹی کے ذریعے فائدہ دیا گیا۔شاید رونالڈو کے مداح اس بات سے اختلاف کریں لیکن دیکھا جائے تو کسی حساب سے وہ پینلٹی بنتی نہیں تھی۔ ڈیفینڈر واضح طور پر بال پر تھا جس پر پینلٹی بنتی نہیں تھی اور نہ ہی رونالڈو ایسی پوزیشن پر تھے جہاں سے وہ باآسانی گول مار سکتے تھے جو ڈیفینڈر کی وجہ سے ممکن نہ ہوسکا ہو۔ خیر گھانا کے شائقین اس موقع پر ٹوئٹر پر سوال کرتے نظر آئے کہ وی اے آر کے ذریعے اسے کیوں نہیں دیکھا گیا۔گھانا کی ٹیم کو جب بھی ورلڈ کپ میں کھیلتے دیکھا ہے تو ان کی ٹیم میں ایک منفرد جذبے کا احساس ہوا ہے، جیت کی جستجو اور پیچھے نہ رہنے کی جدوجہد محسوس ہوتی ہے۔ بالخصوص 88ویں منٹ میں گھانا کے گول کے بعد بخاری کا رونالڈو کی سیلیبریشن کی نقل کرنا اس میچ کا ایک دلچسپ لمحہ تھا۔گھانا کی جانب سے ہونے والے دونوں ہی گول بہترین تھے۔ کھیل کے اختتامی لمحات میں ان کا جذبہ جس طرح کا تھا اگر تھوڑا اور وقت ملتا تو گھانا یہ مقابلہ 2-3 سے نہ ہارتی۔ یہی وجہ ہے کہ پرتگال کے خلاف ان کے کھیل نے بتا دیا کہ گروپ ایچ میں وہ تمام ٹیموں سے ٹکر کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اگر جنوبی کوریا اور یوروگوئے کے میچ کی بات کریں تو لگتا تھا کہ یہ میچ کافی دلچسپ ہوگا لیکن امیدوں کے برخلاف یہ کافی سست رہا اور اس میچ میں ایک بھی شاٹ آن ٹارگٹ نہیں مارا گیا۔سب ہی سواریز کو اچھا کھیلتا دیکھنا چاہ رہے تھے مگر ایک، 2 کوششوں کے سوا سواریز کا کھیل اتنا متاثرکن نہیں رہا۔ دوسرے ہاف میں سواریز کی جگہ کاوانی کو بھیجا گیا، یوں یوروگوئے کے ٹاپ سکورر کی جگہ دوسرے نمبر کے ٹاپ سکورر نے
لے لی۔ کاوانی نے آتے ہی گول مارنے کی کوششیں کیں لیکن یہ میچ ویسا ہوا نہیں جیسی توقع تھی۔کپتان سون ہیونگ من کا یہ جنوبی کوریا کے لیے 105واں میچ تھا۔ انگلش پریمیئر لیگ کے باصلاحیت کھلاڑی پر سب کی نظریں تھیں یا پھر شاید یہ اس وجہ سے بھی تھا کہ جنوبی کوریا کی ٹیم میں صرف وہی ایک ایسے کھلاڑی تھے جن سے اکثریت واقف ہے۔جنوبی کوریا کے عوام کی سون ہیونگ من سے محبت دیکھ کر حیرت ہورہی تھی۔ کپتان جن کی انجری کے باعث پہلے ہی عالمی کپ میں شرکت مشکوک تھی اور ایک موقع پر جب وہ میدان میں گرے تو اسٹیڈیم میں موجود شائقین آبدیدہ ہوگئے۔ ایک کھلاڑی کے لیے اس سے زیادہ اعزاز کی بات کیا ہوگی کہ اس کے ملک کے لوگ اس کا احترام اور اس سے محبت کریں۔ سون ہیونگ من اس معاملے میں خوش قسمت ہیں۔اس میچ میں نظر ویلورڈے پر تھی۔ نوجوان کھلاڑی جو کلب ریال میڈریڈ کے لیے بہترین کارکردگی پیش کرتے آئے ہیں ان کا یہ پہلا عالمی کپ تھا۔ یوروگوئے کے لیے کل کے میچ میں ان کا کردار بہت منفرد تھا۔ ایک بار تو ان کا شاٹ گول پوسٹ پر بھی لگا، مگر گول نہیں ہوسکا۔ البتہ جنوبی کوریا کی کاونٹر گول مارنے کی کوشش روکنے پر ویلورڈے کے جوش نے ثابت کیا کہ نوجوان کھلاڑی ورلڈ کپ میں نیا رنگ پیدا کرتے ہیں۔اس دن کا ایک اور اہم لمحہ سوئٹزرلینڈ کے کھلاڑی ایمبولو کا کیمرون کے خلاف گول سکور کرکے جشن نہ منانا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کیمرون ایمبولو کا آبائی ملک ہے اسی لیے احترام کے طور پر انہوں نے جشن نہیں منایا۔ سچ پوچھیے تو ان کے اس عمل نے دل جیت لیا۔یہ دن، پہلی بار عالمی کپ میں شرکت کرنے والے نوجوان کھلاڑیوں کے نام رہا۔ پھر چاہے وہ وینیشیئس جونیئر ہوں یا ریچارلیسن، ویلورڈے ہوں یا فیلس سب کی کارکردگی متاثر کن رہی۔ آنے والے دنوں میں ان کھلاڑیوں کے کھیل پر دنیا کی نظریں جمی ہوں گی۔یوں دن کے اختتام پر جہاں گروپ جی میں سوئٹزرلینڈ اور برازیل کی برتری واضح ہوگئی وہیں گروپ ایچ میں گھانا نے یوروگوئے اور جنوبی کوریا کو خبردار بھی کردیا ہے کہ اسے شکست دینا ہرگز آسان نہیں ہوگا۔