دور اندیشی کا فقدان 

 کسی بھی ملک کی ترقی میں دور اندیش قائدین کامیسر ہونا اہم کردار ادا کرتا ہے، آج جو ممالک دنیا پر راج کر رہے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ترقی میں بلند ترین مقام پر پہنچے ہیں تو یہ سب کچھ بلا وجہ نہیں بلکہ اس میں  ان ممالک کے ان دور اندیش قائدین کا ہاتھ ہے جن کی مستقبل پر نظررکھنے اور دور رس اثرات کے حامل اقدامات کے باعث ان ممالک نے ترقی کی۔اس کی ایک مثال چین کی ہے جہاں حکمرانوں نے ملکی معیشت کو ایسی بنیادوں پر استوار کیا کہ ملک پائیدار بنیادوں پر ترقی کر تا گیا اور وہاں پر غربت سمیت بہت سے مسائل پر قابو پالیا گیا ہے۔ یہ وہاں کی دور اندیش قیادت کا ہی کارنامہ ہے کہ انہوں نے تعلیم میں جدت اور ٹیکنالوجی کے کردار کو تسلیم کرتے ہوئے اس طرف توجہ دی اور اس وقت چین دنیا میں ٹیکناجی کے شعبے میں سب سے آگے ہے۔کیونکہ چین نے تعلیم میں سرمایہ کاری کی جو ایک طرح سے تمام شعبوں میں سرمایہ کاری ہے۔ اگر کسی ملک میں تعلیم کا شعبہ درست سمت میں جانے لگا ہے تو اس کا نتیجہ یقینی طور پر زندگی کے تمام شعبوں کی ترقی اور بہترین کارکردگی کی صورت میں سامنے آئے گا۔ا سکے ساتھ ساتھ دور اندیش قائدین جو ملک کی ترقی کی بنیاد رکھتے ہیں تو وہ اس طرح کہ سرکاری مشینری اور وسائل کا سمجھداری کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے  کیونکہ حکمرانوں نے اپنی حکومت سرکاری اہلکاروں کے بل بوتے پر چلانی ہوتی ہے اور ملک میں امن عامہ قائم رکھنے کیلئے انتظامیہ اور پولیس کو استعمال کرنا ہوتا ہے  اس لئے وہ ان کے مورال کو بلند رکھنے پر بھی خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ہم اس ضمن میں ایک مثال دیں گے جس سے ہمارے مندرجہ بالا بیانیے کی وضاحت ہو جائے گی یہ 1976 کی بات ہے اس وقت کے وزارت سرحدی امور کے وزیر ٹانک میں ایک قبائلی جرگے سے خطاب کر رہے تھے جس کے دوران جرگہ کے بعض شرکا نے ایک تحصیلدار کے خلاف شکایتوں کا انبار کھول دیا۔ وزیر صاحب نے اس وقت تو اس تحصیلدار کو کچھ نہ کہا پر جرگہ کے اختتام پر وہاں اسے پولیٹیکل ایجنٹ کے دفتر میں بلا کر تخلیہ میں خوب ڈانٹ پلائی جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ ان کا اس تحصیلدار کو تخلیہ میں بلا کر  ڈانٹ پلانے کے پیچھے کیا فلسفہ تھا تو انہوں نے فرمایا کہ انکوائری کے بعد اگر اس تحصیلدار کیخلاف جو باتیں کی گئی ہیں وہ درست ثابت ہوں گی تو اس کو قرار واقعی سزا دوں گا پر جہاں تک اس کے خلاف بر سر عام جرگہ کے سامنے اسے بے عزت نہ کرنے کا سوال تھا تو ان کا جو فیصلہ تھا وہ اس لئے تھا کہ ایسا کرنے سے اس تحصیلدار کی عزت نفس بھی مجروح ہوجاتی اور عام پبلک میں اس کا دبدبہ بھی ختم ہو جاتا اور اگر عوام کی نظر میں وہ بے توقیر اور کمزور ہو جاتا ہے تو کل کلاں میں اپنا نظام موثر طور پر کیسے چلا پاؤں گا کیونکہ میں نے تو کل کلاں اسی تحصیلدار کے ذریعے اپنا نظام چلانا ہے۔ افسوس کہ وطن عزیز میں ایک عرصے سے مندرجہ بالا اکابرین جیسی سوچ رکھنے والوں کا فقدان رہا۔