موسم سرما اور کورونا

موسم سرما کی شدت میں اضافے کے ساتھ ’کورونا وبا‘ بھی پھیل رہی ہے۔ اُنتیس نومبر کی صبح جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران نوول کورونا وائرس سے پاکستان میں ایک موت ہوئی جبکہ ملک میں تصدیق شدہ (مثبت) کورونا مریضوں کی تعداد 15 لاکھ 75 ہزار 147 ہے اور کورونا وبا کی اِس نئی لہر میں اب تک 30 ہزار 631 اموات ہو چکی ہیں! نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق یومیہ کورونا مریضوں کی تعداد میں بیس سے تیس افراد کا اضافہ ہو رہا ہے جیسا کہ مذکورہ چوبیس گھنٹوں میں بائیس افراد کورونا سے متاثر پائے گئے۔ پاکستان کے لئے کورونا وبا کسی بھی صورت اچھی خبر نہیں کیونکہ دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں کاروباری سرگرمیوں کومعطل نہیں کیا جاسکتا اور ملک پہلے ہی معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔اگرچہ پاکستان میں کورونا وبا سے متاثرین کا تناسب 0.68 ہے اور یہ ڈھائی فیصد تک عمومی تصور ہوتا ہے لیکن اگر احتیاط نہ کی گئی تو ماہرین کے مطابق موسم سرما کے عروج پر (دسمبر و جنوری میں) کورونا وبا تیزی سے پھیل جائے گی۔ کورونا وبا کو چین سے منسوب کیا جاتا ہے جبکہ چین ہی دنیا کا وہ پہلا ملک ہے جس نے سب سے پہلے کورونا وبا کو شکست دی تاہم رواں موسم سرما کے دوران کورونا وبا پھر سے چین میں پھیل رہی ہے اور کورونا کا مقابلہ کرنے کے وسائل کی موجودگی اور عوام کے تعاون کے باوجود اِسے ختم کرنے کی کوششیں ناکام ثابت ہو رہی ہیں۔ چین سے حاصل کردہ اسباق کے مطابق کورونا وبا (بیماری) ابھی ختم نہیں ہوئی اور تازہ ترین اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ نئے انفیکشن اور اموات دونوں میں اضافہ ہوا ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ کورونا وبا پھیلنے کا سلسلہ کسی ایک خطے کا مسئلہ نہیں ہے۔ ایشیا سے یورپ اور امریکہ تک کورونا وبا پھر سے اپنی جگہ بنا رہی ہے اور اِس حوالے سے عوامی رجحانات پھر سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ کورونا کیسز میں ہفتہ وار سب سے زیادہ اضافہ جاپان اور جنوبی کوریا میں ہوا۔ جاپان میں تقریباً سات لاکھ نئے کورونا کیسز اور جنوبی کوریا میں لگ بھگ تین لاکھ اَسی ہزار نئی کورونا انفیکشن سامنے آئی ہیں۔ فرانس میں گزشتہ سات دنوں میں تین لاکھ سے زیادہ نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ جرمنی‘ برازیل‘ امریکہ‘ اٹلی اور تائیوان میں ایک لاکھ سے زیادہ نئے کورونا انفیکشنز کا پتہ چلا ہے۔ درحقیقت کورونا سے متاثر ہونا کسی بھی صورت عمومی بات نہیں بلکہ یہ زندگی اور موت میں سے کسی ایک کے انتخاب کرنے جیسا ہے۔ امریکہ میں اس پچھلے ہفتے کے دوران کورونا سے ایک ہزار سے زیادہ اموات ریکارڈ کی گئی ہیں جبکہ جرمنی اور جاپان میں بھی اسی عرصے کے دوران 800 سے زیادہ اموات ہوئی ہیں۔ ان رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ وائرس اب بھی کم شدت کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ یہ اب بھی مہلک ہے اور اگر دنیا نے اسے سنجیدگی سے نہ لیا تو مزید کئی جانیں جا سکتی ہیں۔ کورونا سے اب بھی دنیا بھر میں لاکھوں لوگ متاثر ہیں اور ہزاروں لوگ اس انفیکشن سے مر رہے ہیں تو اس میں کسی خوش فہمی کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے۔ پاکستان میں اب تک پندرہ لاکھ سے زیادہ کورونا مریض اور فروری دوہزاربیس سے اب تک تین لاکھ چھ ہزار سے زیادہ اموات ریکارڈ ہو چکی ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں کورونا وبا پھیلنے کی کم شرح دیگر ممالک کے مقابلے قدرے بہتر نظر آتی ہے تو اِس شرح کو کم رکھنے کے لئے عوام کو احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ نومبر کے رواں آخری ہفتے کے دوران پاکستان میں قریب چھ ہزار نئے (ایکٹو) کورونا کیسز سامنے آئے ہیں۔ اس میں شاید ہی کسی بھی قسم کے شک کی گنجائش ہو کہ پاکستان نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے لیکن کسی کو بھی اس رجحان کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔ کورونا وبا ایک مہلک بیماری ہے اور یہاں تک کہ سب سے زیادہ ترقی یافتہ ممالک بھی پچھلے دو سالوں میں اس کے مہلک اثرات کے رحم و کرم پر ہیں۔ تاہم اِس بات کو سمجھنا چاہئے کہ دنیا ایک مرتبہ پھر لاک ڈاؤن کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ پاکستان سمیت کئی ممالک کی معیشت‘ انفراسٹرکچر اور نہ ہی درس و تدریس اور صحت کے نظام کورونا کا ایک اور وار سہنے کی سکت رکھتے ہیں۔ ایک ایسی صورتحال جس میں پورے کے پورے شہروں کا ’لاک ڈاؤن‘ کر دیا جاتا ہے کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں بُری طرح متاثر ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر خاص و عوام کو ”کورونا وبا کے خطرے“ کا احساس کرتے ہوئے‘ اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ وہ وائرس کے پھیلاؤ کا ذریعہ نہ بنے۔ گھر سے باہر جاتے ہوئے ہمیشہ چہرے کو ڈھانپ کر رکھا جائے۔ ہاتھوں کو وقفوں وقفوں سے اور بار بار دھویا جائے اور کورونا ویکسین لگوائی جائے۔ کسی نہ کسی طرح پاکستان میں ویکسی نیشن مہم جو پچھلے سال زوروں پر تھی‘ سست روی کا شکار ہے اور اِس بارے میں عوام کو ’کورونا وبا‘ سے خبردار و آگاہ رہنے کی ضرورت ہے۔ گردوپیش میں ایسے کئی لوگ مل جائیں گے جو اب بھی کورونا وبا کو خطرہ نہیں سمجھ رہے اور اِس کی ویکسین کے بارے میں بھی غلط فہمی کا شکار ہیں۔ جن لوگوں نے کورونا ویکسین لگوا رکھی ہے اُنہیں بلاتاخیر ’بوسٹر شاٹس‘ بھی لگوا لینی چاہیئں‘ جو مفت اور باآسانی دستیاب ہیں۔ اِس موقع پر فیصلہ سازوں کو سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں کورونا وبا کے ممکنہ پھیلاؤ پر نظر رکھنی چاہئے جہاں ویکسین اور بوسٹر ڈوز کی فراہمی ازحد ضروری ہے۔پاکستان میں جس طرح کورونا کی پہلی،دوسری اور بعد ازاں آنے والی لہروں میں بہترین پالیسی کے ذریعے نقصان کو کم سے کم رکھنے میں کامیابی حاصل کی تو اب بھی انہی خطوط پر عمل درآمد سے نتائج بہتر سامنے آئیں گے۔ دنیا میں کورونا وباء کا خاتمہ ابھی ممکن نظر نہیں آرہا کیونکہ چین جیسے ملک میں جہاں حکومت سخت گیر پالیسی پر عمل پیرا ہے عوام میں اشتعال انگیزی کے واقعات سامنے آنے لگے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ کورونا کے خلاف اقدامات میں عوامی مفاد کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے اگر سخت پابندیاں عائد کی جائیں تو اس سے نہ صرف معاشی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں بلکہ عوام میں مایوسی کی لہر بھی دوڑتی ہے اور نفسیاتی مسائل میں بھی اضافہ ہوتا ہے جس کا ان ممالک میں مشاہدہ کیا گیا ہے جہاں سخت گیر پالیسی کے ذریعے کورونا پر قابو پانے کی کوششیں کی گئیں اور نتائج بہتر سامنے نہیں آئے۔