ایسے بھی ہیں کہ گھر کی دہلیز کے اندر گاڑی میں بیٹھتے اور واپس اسی مقام پر آ کر اُترتے ہیں۔دفتر جائیں تو دفتر کے باہر اُتر کردو قدم چلے اور پھر کمرے میں کرسی میزکے کنارے سارادن گزار دیتے ہیں۔اگرکہیں دورے یا میٹنگ پر جانا ہو تو بھی گاڑی استعمال ہوگی۔پھر سرکاری ہوں یا پرائیویٹ ہوں گاڑی ہی کا استعمال ہوتا ہے۔پھر ہماری طرح بھی ہیں کہ پیدل چلنابھول گئے ہیں۔ اگر کہیں بائیک میں پٹرول نہ ہوا تو گلی میں جنرل سٹور سے سودا لینے کو گئے تو پیدل جانا ہوا۔تب لوگ بہت حیرانی سے دیکھتے ہیں۔پوچھ بیٹھتے ہیں کہ کیوں بائیک کہاں ہے۔ہم کہتے ہیں بس ذرا واک کا موڈ ہوا ہے۔مگر حقیقت یہ کہ پٹرول مہنگا ہے ڈال کر آؤ تو پھر ختم۔اس وقت دھیان چلاجاتا ہے کہ ہماری چاند گاڑی پٹرول زیادہ کھانے لگی ہے۔مستری کو دکھلاتے ہیں وہ پٹرول کی روانی اتنی کم کر دیتا ہے کہ پھر گاڑی کو سٹارٹ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔جہاں رکو بائیک بند پھر لاتیں مار مار کر سٹارٹ کرو۔کہیں دو قدم لینا ہوں توقدم کیسے رکھتے ہیں سوچنا پڑتا ہے الٹا لڑکھڑانے لگتے ہیں۔جیسے اس افسانے کی طرح کہ پانی کی تلاش کرتے ہیں۔کہیں پہاڑ میں پانی نکل آتا ہے۔۔پیدل گھومنا زیادہ بہتر ہے مگر وافر مقدارمیں وقت بھی تو چاہئے۔ایک نہایت مصروف آدمی پیدل کیسے گھومے گا۔ سو کام دھندے ہیں جو بائیک اور گاڑی کے ذریعے جلد از جلد مکمل ہو جاتے ہیں۔میں نے بعض لوگو ں کو پیدل جاتے ہوئے بہت کم دیکھا ہے۔اس وقت جب وہ کالج کے احاطے میں آ کر گاڑی پارک کرتے ہیں تو کلاس روم یا سٹاف روم کے برآمدے سے ہوکر راستے میں ہم پیشہ دوستوں سے سلام دعا کر تے ہوئے آئیں تو آئیں ورنہ تو دفتروں کی چار دیواری کے اندر ہی پیدل چلتے ہیں۔ٹماٹر جب دوسو روپے اور پیاز بھی گراں فروخت ہو تو پھر گھر کے لئے ٹماٹر لینا ہوں گے یا پھر پٹرول ڈالنا ہوگا۔ بائیک میں تو چلو گاڑی کے مقابلے میں کم خرچہ ہے۔مگر کس کس مد میں رقم خرچ کی جائے۔ سودا سلف لینا مشکل ہوا جاتا ہے۔گذشتہ روز جو مصنوعی دودھ کاڈبہ پینتالیس پرتھا وہ آج کے دن پچاس کا ہے۔جانے یہ پاؤ بھروائٹنر کا محلول کلو کی قیمت پر کچھ دنوں بعد دستیاب ہوتو شہری چائے پینا چھوڑ دیں۔مگر پیدل بھی پھریں تو کب تک اور کہاں تک پیدل جائیں گے۔ کیونکہ شہر وسیع ہو رہاہے او رراستے طویل ہوتے جارہے ہیں۔ پھرعزیز رشتہ دار دوست یار اپنے مکانات فروخت کر کے شہر کے باہر مقیم ہوئے جاتے ہیں۔ان کو ملنے اگر ضروری طور پر جانا ہوتو پیدل کیسے جایا جائے گا۔ مگر ہیں ایسے بھی کچھ لوگ جوپیدل ہی گھومتے ہیں۔ان کا بس چلے تو نوشہرہ اور چارسدہ تک بھی پیدل ہی جائیں۔یا توان کے پاس کافی سے زیادہ وقت ہے یا پھرنہ ہونے کے برابر جیب خالی ہے۔ یہ بھی نہیں کہ ہم کبھی پیدل نہیں گھومے۔ہم بھی پیدل جایا کرتے تھے۔بلکہ جوانی کا زمانہ تھا جاگنگ کرتے ہوئے سودا لینے جاتے۔مجال ہے کہ ذرا بھی سانس پھولتی ہواور شرم آتی ہو۔ اس ہلکی پھلکی دوڑ میں کبھی احساس نہ ہوا کہ ہماری جسم کی رگیں تنگی کاشکار ہو چکی ہیں۔مگر اب تو کسی نالی کے اوپرسے گزرتے ہوئے خیال آتا ہے کہ ہمارا وزن بہت بڑھ چکا ہے۔نالی بھی ندی محسوس ہوتی ہے۔ایک میاں بیوی کے جوڑے کو میں اندرون شہرہر مقام پر پیدل جاتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ماشاء اللہ بہت پتلے سوکھے اور آپس میں کسی موضوع پر ہمیشہ گفت و شنید کرتے ہوئے جا رہے ہوتے ہیں۔ پھرایک بابا ہیں وہ بھی آہستہ آہستہ مگر ثابت قدمی سے جاتے ہیں۔کہیں کسی عزیز کے گھرجانا ہو تو ان کو رکشہ وغیرہ کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔بس چل پڑتے ہیں ڈیڑھ گھنٹہ واک کے بعد وہاں پہنچ جائیں گے۔ ان کو بھی دونوں میاں بیوی کی طرح کسی گاڑی اور پھرپٹرول کی ضرورت نہیں۔قدرت کی عطا کردہ جسمانی صلاحیت سے خوب کام لیتے ہیں۔ان کے لئے سلامتی کی دعا ہے۔ ہم چوک ناصر خان اپنے گھرسے گلشن رحمن کالونی تک بھی پیدل جاتے او رہلکاپھلکا دوڑ کر جاتے۔پروگرام میں شرکت کرنے والے ہمیں دیکھ کر حیران رہ جاتے۔مگر اب ہم خود جو اس قابل نہیں رہے تو ان بابا کو اور ان میاں بیوی کو دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ بابا کے مقابلے میں تو ہم اب بھی جوان ہیں اوراچھے خاصے ہیں۔مگر سٹیمنا ہماراتو ان کے سامنے صفر سے کچھ نیچے ہی ہے۔ پیدل گھومنا اور پھر اس شہر میں بڑے دل گردے کا کام ہے۔فائدہ یہ کہ ان کو تونہ رش کی شکایت ہوگی نہ تو پٹرول کے اچانک ختم ہوجانے کاڈر ہوگا اور نہ ہی ٹائر کے بجائے پاؤں کے پنکچر ہونے کی فکر ستائے گی۔ یہا ں تو حال یہ ہے کہ گاڑی یا بائیک والے پیدل چلیں۔ لیکن چلے تو جائیں گے مگر گھر واپس آئیں گے نہیں بذریعہ قریبی ہسپتال واپس لائے جائیں گے۔ کیونکہ پیدل چلنے کے بعد بعض کی سانس جلد اکھڑجائے گی اور بعض حضرات خاصا پیدل چل کر سانس پھول جانے کے بعد دل میں درد کی شکایت محسوس کریں گے۔جن کا میں نے ذکر کیا وہ سردی ہی میں نہیں گھومتے چلچلاتی دھوپ بھی ہو تو پیدل ہی چلتے پھرتے نظر آئیں گے۔لیکن ان کا پیدل گھومنا سیر سپاٹے کانہیں وہ کام کاج کی غرض سے کہیں جا رہے ہوتے ہیں۔