توجہ طلب امور

  اگر یہ بات سچ ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے جنگ بندی ختم کر دی ہے تو یہ نہایت ہی تشویشناک امر ہے بہت ضروری ہو گیاہے کہ افغان طالبان کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کا عمل شروع کیا جائے اور انہیں معاملے کی سنگینی سے آ گاہ کیا جائے یاد رہے کہ افغان طالبان نے پوری دنیا کو یقین دلایا ہوا ہے کہ کہ وہ اپنی سر زمین کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے نہیں دیں گے اس میں کوئی شک نہیں کہ باجوڑ سے لے کر جنوبی وزیرستان تک کے علاقے کی افغانستان  کے ساتھ جڑی ہوئی سرحد کے راستے آج بھی افغانستان سے دہشت گردوں کی پاکستان میں آمد کو موثر طور پر روکا نہیں جا سکا ہے۔ اس ضمن میں وزارت داخلہ کو ایسا میکینیزم مرتب کرنا ضروری ہے کہ جس کے تحت یہ یقینی بنایا جائے کہ کوئی بھی افغانی بغیر ویزا کے پاکستان کی حدود میں داخل نہ ہو اور پھر ویزا کی میعاد ختم ہونے پر اپنے ملک واپس چلا جائے۔ دوسری تشویشناک خبر یہ ہے کہ دنیا کی 70 لاکھ آ بادی بشمول وطن عزیز میں رہنے والے لوگ آلودہ فضا سے موت کا شکار ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں اور سموگ انسانوں اور جانوروں کے ساتھ پورے ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔صحت کے عالمی ادارے کے مطابق دنیا کے مختلف ممالک میں فضائی آلودگی کے باعث  تقریباً ستر لاکھ افراد سالانہ  موت کا شکار ہورہیہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے یہ اعداد و شمار اس لحاظ سے تشویش ناک ہیں کہ  دنیا کی عالمی طاقتیں آپس میں برسرپیکار ہیں اور وہ اس سنگین مسئلے کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دے رہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ہر سال انہی دنوں  پاکستان میں جہاں سموگ (دھند اور دھوئیں کا مجموعہ) بھی بار بار کا چیلنج ہے۔ فضائی آلودگی نظام تنفس میں بگاڑ کا باعث بنتی ہے اور اِس سے پھیپھڑوں کے امراض میں اضافہ ہورہاہے اور جیسا کہ انہی سطور میں پہلے تذکرہ ہوچکا ہے کہ ملک میں ٹی بی یعنی تپ دق کے کیسز پھر سے زیادہ ہونے لگے ہیں اور ملک میں ٹی بی کے مریضوں  اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ  فضائی آلودگی کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی صنعتوں اور دیگر محرکات  کے خلاف موثر قانون سازی اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں ہر طرح کی گاڑیاں سڑکوں پر دوڑ رہی ہیں ان میں ایسی بھی ہیں جو انتہائی زیادہ مقدار میں زہریلا دھواں اگلتی ہیں۔ہمارے اکثر شہروں میں فضائی آلودگی خطرناک حدود کو چھورہی ہے اور مختلف ٹیسٹوں میں ’ڈبلیو ایچ او‘ نے دنیا کے  زیادہ ترشہروں میں دھوئیں کے ذرات‘ ٹھوس اور مائع دھند کا مرکب پایا ہے  جو زندگی کیلئے خطرناک ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ فضائی آلودگی میں کمی لانے اور اس کا راستہ روکنے کیلئے موثر اور عملی اقدامات کئے جائیں اور اس میں عام شہریوں کی شرکت کو یقینی بنایا جائے کیونکہ کوئی منصوبہ اس وقت تک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتا جب تک عام شہری اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ نہ لیں۔ ماحولیاتی آلودگی ان مسائل میں سے ہے جن کا سامنا معاشرے کے ہر فرد کو ہے اور اس لئے یہ ہر ایک کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس حوالے سے اپنے فرائض پوری تندہی سے اداکرے ہم اگر اپنے ارگرد کے ماحول کو صاف رکھیں اور آلودگی پھیلانے والی اشیاء کو جا بجا پھینکنے سے گریز کریں تو ماحول کو بڑی حد تک صاف ستھرا رکھا جا سکتا ہے اور اس کا نتیجہ یہی سامنے آئے گا کہ صحت کو لاحق خطرات ختم ہو جائیں گے۔عالمی ادارہ صحت نے ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے جو رپورٹ جاری کی ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل نہیں کہ انسانوں کے ہاتھوں زمین پر زندگی خطرے میں ہے اور اگر انہوں نے اپنا رویہ اور طرز عمل تبدیل نہیں کیا تو یہ آنے والی نسلوں کے ساتھ ظلم ہے کہ ان کو ایسی دنیا ملے جہاں پر آلودگی سے سانس لینا مشکل ہو اور جہاں پر پانی سمیت زندگی کے تمام لوازمات آلودگی کا شکار ہوں اگر دیکھا جائے تو جس طرح ہم اپنے آنے والی نسلوں کو مسائل سے بھرپور ماحول دے رہے ہیں وہ ہر گز مناسب طرز عمل نہیں۔