ریت رواج بھی تو کسی قوم کی شناخت کا اہم حصہ ہوتے ہیں‘یہی رواج مختلف قبیلوں اورخاندانوں کو ایک دوسرے سے الگ طور پرشناخت دلواتے ہیں۔ایک ہی سرزمین ہے جس پر ہرطرح کی قوموں کے جدا جدا رسوم و رواج ہیں۔بلکہ اس حد تک کہ بعض ملکوں کی رسوم کا پلندہ ہی ان کاآئین کہلاتا ہے۔مگرجو بھی ہو شائستگی کادامن ہاتھ سے چھوڑنا نہیں چاہئے۔ اگرتہذیب یافتہ اور ترقی یافتہ قوموں کے رواج ہیں۔مگر اس قدر قابل قدر توہیں کہ وہاں کا آئین بن گئے۔مگر ہمارے ہاں تو معاملہ الٹا ہے۔یہ شاید اس لئے ہے کہ ہم بڑی حد تک رسوم ورواج کے قیدی ہیں،وہ رواج جو تمیز سے متصادم ہوں ان کو ترک کر دینا چاہئے۔ مگر ہم لوگوں نے صدیوں سے چلے آرہے رواجوں کواس قدر سینوں سے چمٹا رکھاہے کہ گویا وہی خودہمارے گلے کا ہار بن گئے ہیں جن سے پیچھا چھڑائے نہیں چھوٹتا۔ہم ان کی قید میں یوں پسِ زنداں ہیں کہ اگر فردِ واحد ان رواجوں سے ہٹ کر چلنے کی کوشش کرے توناکام رہے گا۔اس کوہزار کوشش کے باوجود اپنی الگ سی راہ نہیں اپنانے دی جائے گی۔ وہ ویسے ہی دوسروں کے ساتھ نہ چاہتے ہوئے قدم ملا کر چلنے پر مجبور ہوگا۔یہ دہرا معیار ہمیں لے ڈوباہے۔ہم کہتے کچھ ہیں او رکرتے کچھ ہیں۔جب تک یہ ڈبل گیم ہم سے نہیں چھوٹے گی ہمارا مستقبل تو کیا ہمارا حال بھی غیر محفوظ اورخراب و خستہ رہے گا۔ دوسری قوموں نے اپنے رسوم ورواج پر خوب سوچ بچار کرکے صدیوں کا سفر طے کر کے منزلیں حاصل کی ہیں۔مگر ہم ہیں کہ ابھی تک راستے کے مسافر ہیں اور اندھیرے میں جب کچھ نظرنہیں آتا تودیواروں سے سر ٹکراکر اپنے آپ ہی کو لہولہان کئے جاتے ہیں۔ تعلیم کے اچھے اثرات کی وجہ سے اگرپورے طور پر نہیں توکسی حد تک شہروں کے رہنے والوں نے اپنی زندگی کو خاصا بدلا ہے۔انہوں نے اپنی زندگی میں جو بیکار کی رسومات اور رواج ہیں ان کو مکھی کی طرح نکال کر باہر پھینک دیا ہے۔حالانکہ رسوم ورواج وہ شئے ہیں جن کو اپنی زندگی سے نکالا نہیں جاسکتا۔ ہاں تعلیم و تربیت اور دوسری قوموں کی دیکھادیکھی ہم نے اگر رواج ختم نہیں کئے تو ان کو بدلاضرور ہے۔بدلابھی یوں کہ ان کی شکل کو جدید زمانے کے مطابق تبدیل کردیا۔یوں اپنی زندگی کو آسان بنایا ہے۔رواجوں کو مکمل طور پر تیاگ دینا ناممکن ہے۔مگران میں حسین تبدیلی لے آناآسان ہے۔رواج تو صدیوں کا سفرکرکے ختم ہوتے ہیں یا پھر کسی قوم کی مجموعی نفسیات میں سینکڑوں سالوں میں آہستگی سے آن داخل ہوتے ہیں۔مولانا محمد آزاد نے ڈیڑھ سو سال پہلے لکھا ہے کہ ”جب رواجِ عام کاراجہ ہولی کھیلتا ہے تو بڑے بڑے معقول اور وضعدار اشخاص اس بات کی چھینٹیں فخر سمجھ کر سر اور دستار پر لیتے ہیں“۔مطلب یہ ہوا کہ جب نیا فیشن عام ہونے لگتا ہے تو اس کی راہ میں رکاوٹ بننے کی صلاحیت رکھنے والے لوگ بھی جو معاشرے کی کریم ہوتے ہیں اسی رواج کو اپنا لیتے ہیں۔پھراپنا کر شرمندہ نہیں ہوتے بلکہ فخر سے گھومتے پھرتے ہیں۔یہ ڈبل گیم ہے۔وہ لوگ جو پرانے رواجوں کی برائی کرتے ہیں جب روسٹرم پر آتے ہیں تو اخلاقی بھاشن دیتے ہیں۔اندھیرے کے خلاف بولتے ہیں مگر جب سٹیج سے نیچے اُتر آتے ہیں تو پھر رسوم ورواج کے انھیں اندھیاروں میں جاکر جدید زمانے کی ٹارچ کو آف کر کے ہاتھ میں تھام کر گم ہو جاتے ہیں۔آدمی جتنا بھی تعلیم یافتہ ہو جائے اور غیر ضروری رسوم کو برا جانے مگر وہ اکیلا اس معاشرے کے ساتھ لڑائی لڑنے سے قاصر ہوتا ہے۔وہ کوشش تو بہت کرتا ہے مگر آخرِ کاراس کے غبارے سے ہوا نکل جاتی ہے۔وہ اکیلا ہی جانب منزل چلا جاتا ہے اور جاتا ہی رہتا ہے۔ اس راہ میں اس کے ساتھ چلنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ظاہر ہے کہ خود کلامی میں بقول جون ایلیا”آپ اپنے سے ہم سخن رہنا۔ہم نشیں سانس پھول جاتی ہے“۔پھر اس راہ میں ایک وہی راہرو ہوتاہے اور بادِ صبا کیوں نہ ہو ”شہر کوچوں میں خاک اڑاتی ہے“۔وہ اکیلا تھک ہار کر ان پہاڑ جیسی رسوم کے آگے کسی درخت کے نیچے ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر بیٹھ جاتا ہے۔وہ شکست خوردہ ہو جاتا ہے۔رسوم اس پرحاوی ہو جاتی ہیں۔ پھر جب وہ سوچتا ہے تو سوچتے سوچتے آہستگی سے دوبارہ اٹھتا ہے۔وہ جس راہ سے آیاتھا اسی راہ پر واپس اپنوں اور اپنی رسوم کی دنیامیں لوٹ جاتاہے۔