تحفظ ماحول کی جملہ کوششوں میں اُن اعدادوشمار کا عمل دخل ہوتا ہے جو کرہئ ارض کے قدرتی تنوع میں بگاڑ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ عالمی ادارہئ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مرتب کردہ آب و ہوا کی خرابی سے متعلق تخمینہ جات سے اخذ ہے کہ دنیا میں ہر دس میں 9 افراد ایسی ہوا میں سانس لے رہے ہیں جو اُن کیلئے صحت مند نہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ فضائی آلودگی کسی ایک ملک کا نہیں بلکہ عالمی مسئلہ ہے اور دنیا کا کوئی بھی ملک اِس سے محفوظ نہیں رہا کہ جہاں ہوا کی پاکیزگی کے رہنما خطوط میں طے شدہ آلودگی کی حد قابل قبول شرح کے مطابق ہے۔ فضائی آلودگی سے متعلق اِس صورتحال سے پاکستان جیسے ممالک اِس لئے بھی زیادہ متاثر ہیں‘ کیونکہ ایک تو ہمارے ہاں تحفظ ماحول کے حوالے سے عوامی شعور کی سطح خاطرخواہ بلند نہیں اور دوسرا قومی فیصلہ سازی میں ایسے محرکات سے اجتناب نہیں برتا جا رہا‘ جن کی وجہ سے فضائی آلودگی بڑھ رہی ہے۔ فضائی آلودگی سے متاثر ہونے والے غریب و متوسط طبقات سے تعلق رکھنے والے زیادہ متاثر ہوتے ہیں جبکہ ’زہریلی ہوا‘ کے سبب پاکستان جیسے ممالک کی قومی آمدنی کا بڑا حصہ علاج کی سہولیات فراہم کرنے پر خرچ ہو رہا ہے۔ اگر فضائی آلودگی کی شرح میں کمی لائی جائے اور ماحول کو اُس کی اصل حالت میں بحال کرنے میں سرمایہ کاری کی جائے تو اِس سے علاج پر اُٹھنے والے اخراجات میں بھی غیرمعمولی اور فوری طور پر کمی آئے گی۔ ڈبلیو ایچ او کا یہ بھی اندازہ ہے کہ دنیا بھر میں فضائی آلودگی کی وجہ سے ہر سال تقریباً ستر لاکھ افراد ہلاک ہو رہے ہیں۔ یہ اندازے عالمی سطح پر ماحولیات کے منتظمین کے لئے چشم کشا ہونے چاہئیں لیکن اس سے بھی زیادہ پاکستان میں جہاں سموگ (دھند اور دھوئیں کا مجموعہ) بھی بار بار کا چیلنج ہے۔ فضائی آلودگی نظام تنفس میں بگاڑ کا باعث بنتی ہے اور اِس سے پھیپھڑوں کے امراض پھیلتے ہیں جبکہ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے تپ دق (ٹی بی) لاحق ہوتی ہے یا ٹی بی کے مریضوں میں یہ مرض دوبارہ سے شدت اختیار کر جاتا ہے۔ فضائی آلودگی کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی صنعتوں اور دیگر محرکات کے علاوہ دنیا بھر میں درجہ حرارت میں ہونے والی تبدیلیاں جو گلوبل وارمنگ کا باعث بن رہی ہیں وہ بھی ہوا کے معیار کو خراب کرنے کی ایک بڑی وجہ ہیں۔ سڑکوں پر ٹریفک جو زہریلے دھوئیں کا اخراج کرتی ہے اور ہوائی سفر جو اس سے بھی زیادہ نقصان دہ گیسوں کو پھیلاتا ہے‘ اِن سب نے فضائی آلودگی میں اضافے جیسی افسوسناک صورتحال میں کلیدی کردار ادا کیا ہے جس نے عام شہریوں کو تازہ ہوا کے حق سے محروم کر دیا ہے۔ مختلف ٹیسٹوں میں ’ڈبلیو ایچ او‘ نے دنیا کے بیشتر شہروں میں دھوئیں کے ذرات‘ ٹھوس اور مائع دھند کا مرکب پایا ہے جس کی شدت مختلف ہے۔ ایسے ذرات فضا میں معلق رہتے ہیں اور پاکستان سمیت بیشتر ممالک میں ماحولیاتی اور صحت کے سنگین مسائل پیدا کرتے ہیں۔ پاکستان میں ہر موسم سرما میں یہ فضائی آلودگی ایک بڑے چیلنج کے طور پر اُبھرتی ہے حالانکہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس سے دیگر موسموں کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ تقریباً تمام شہروں اور یہاں تک کہ قصبوں اور دیہاتوں میں کھانسی بوڑھوں اور بچوں کو یکساں لاحق ہے اور یہ ایک معمول کی بیماری بن گئی ہے۔ شہری علاقوں میں صرف ہوا میں سانس لینا سگریٹ نوشی کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے یعنی جو سگریٹ نوشی نہیں بھی کرتا لیکن اگر وہ آلودہ فضا میں سانس لیتا ہے تو یہ سگریٹ نوشی کے مساوی پھیپھڑوں کو نقصان پہنچانے کا باعث عمل اور ایک سنگین مسئلہ ہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ ایک طرف فضائی آلودگی کی شرح میں ہر سال اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف قومی فیصلہ سازی میں حصہ رکھنے والی سیاسی جماعتیں اِس سے باخبر ہونے کے باوجود بھی خاطرخواہ اقدامات نہیں کر رہیں۔ پاکستان میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو فضائی آلودگی کم کرنے کے لئے زیادہ کوششیں کرنی چاہئیں۔ کوئلے سے پاک بجلی کی پیداوار سے متعلق توانائی پالیسی اور ٹرانسپورٹ پالیسی متعارف کروا کر اِس سلسلے میں شروعات کی جا سکتی ہے۔ ایک پائیدار پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم ہی فضائی آلودگی پر قابو پانے میں مددگار و معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ لاہور جیسے شہر سے اطلاعات ہیں کہ وہاں سموگ کی سطح دنیا میں سب سے زیادہ ہے جبکہ پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے کئی شہروں میں بھی سموگ پھیلا ہوا ہے چونکہ پاکستان میں دھوپ اور ہوا کی کوئی کمی نہیں ہے‘ اس لئے قابل تجدید توانائی کے متبادل ذرائع سے فائدہ اُٹھانا چاہئے۔ کوئلے اور ڈیزل جو کہ ہوا کو آلودہ کرتے ہیں‘ کی جگہ توانائی کے متبادل ذرائع کا استعمال نہ صرف حال بلکہ مستقبل کے لئے بھی مفید ثابت ہو سکتا ہے۔