بہتر بارڈر مینجمنٹ کی ضرورت 

حنا ربانی کھر کے  حالیہ دورہ کابل  کے دوران افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری کیلئے نیا طریقہ کار لانے پر جو اتفاق کیا گیا ہے وہ قابل ستائش ہے پر اس ضمن میں جو سب  سے ضروری بات ہے وہ یہ ہے کہ بارڈر منیجمنٹ کو مضبوط بنانا بہت ضروری ہے۔ابھی تک افغانیوں کی پاکستان آمد و رفت کے نظام کو فول پروف نہیں کیا گیا ہے کوئی ایسا میکینیزم ابھی تک وضع نہیں کیا گیا ہے کہ جس سے صرف وہ افغانی پاکستان میں داخل ہوں کہ جن کے پاس پاکستان آنے کا ویزا ہو اور پھر اس بات کا بھی پاکستانی حکام کو پتہ چل سکے کہ جو افغانی پاکستان کے  ویزا سسٹم پر آء ے تھے وہ ویزا کی معیاد ختم ہونے کے بعد واپس اپنے وطن جا چکے ہیں اس سلسلے میں جو اگلی بات اہم ہے وہ یہ ہے کہ افغان حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ افغانستان کی سر زمین کو کوئی بیرونی ملک پاکستان کے خلاف کسی سازش کی تکمیل کے لئے استعمال نہ کرے۔ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ اور وزرا دفاع کی سطح ہر ہر ماہ ایک دفعہ کابل اور ایک مرتبہ اسلام آباد میں میٹنگ کیا کریں۔ ایک  اخباری رپورٹ کے مطابق حکومت آرمز لائسنز کے اجرا کے بارے میں نئی پالیسی وضع کر رہی ہے لہٰذابہتر ہوگا کہ اس ضمن میں چند ضروری گذارشات حکومت کے گوش گزار کر دی جائیں پہلی بات تو یہ ہے کہ ممنوعہ بور کے آ ٹومیٹک اسلحہ کا  پرائیویٹ ہاتھوں میں استعمال بالکل بند کر دیا جائے کہ اس سے ملک میں کافی تباہی پھیلی ہے۔اگر کوئی فرد دشمن دارہے تو اسے متعلقہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ پولیس کی تصدیق کے بعد اپنی حفاظت کیلئے غیر ممنوعہ بور کے  پستول کا آرمز لائسنس جاری کر سکتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں کلاشنکوف کا بھلا کیا کام۔ اب کچھ نظر عالمی منظر نامے پر ہو جائے جہاں چین نے امریکی حکام کو خبردار کیا کہ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات میں مداخلت نہ کریں۔دوسری طرف لداخ سمیت دیگر سرحدی علاقوں میں  چینی فوج کی تعیناتی کے حوالے سے پینٹاگون نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ چین اس لیے سرحدی کشیدگی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا ہے، تاکہ کہیں اس کی وجہ سے بھارت امریکہ کے ساتھ مزید قریبی شراکت داری نہ بڑھا لے۔ پینٹاگون کا کہنا ہے کہ گزشتہ پورے سال چینی فوج نے اپنی بھارتی سرحد کے بعض علاقوں کے ساتھ اپنے فورسز کی تعیناتی کو برقرار رکھا۔ اس کے ساتھ ہی سرحد پربنیادی ڈھانچے کی تعمیر کا کام بھی جاری رہا۔2020 کے اوائل میں مشرقی لداخ میں ایل اے سی کے مختلف مقامات پر دونوں  ممالک کے درمیان کشیدگی کا آغاز ہوا تھا اور پھر  جون میں چینی اور بھارتی افواج کے درمیان خاردار ڈنڈوں، لاٹھیوں اور پتھروں کے ساتھ جھڑپیں ہوئی تھیں۔ اس تصادم میں بھارت کے 20 فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔چین اور بھارت کے درمیان کشیدگی کے سبب واشنگٹن اور نئی دہلی میں قربیتیں بھی بڑھی ہیں۔ اس وقت بھارت اور امریکہ کی فوجیں چین کے ساتھ بھارت کی متنازع سرحد کے پاس ایک سرد پہاڑی علاقے میں بلندی پر تربیتی مشقوں میں حصہ لے رہی ہیں۔ یہ مشترکہ مشقیں دو ہفتے قبل شروع ہوئی تھیں۔امریکہ اور بھارتی فوجی پہاڑی ریاست اتراکھنڈ کے اولی میں اس مقام پر فوجی مشقیں کر رہے ہیں، جو ایل اے سی کے بالکل پاس ہی ہے۔