فٹ بال کے عالمی مقابلوں (فیفا ورلڈ کپ) میں ایران کی امریکہ سے شکست غیرمتوقع رہی اور ایران کے حامی فٹ بال شائقین کو اِس شکست سے صدمہ ہوا ہے۔ اُمید تھی کہ ایرانی ٹیم 1998ء کے ’ورلڈ کپ‘ میں امریکہ کے خلاف اپنی جیت کے اعادہ کرے گی اور اِس سلسلے میں ٹیم کے کھلاڑیوں اور آفشیلز کے بیانات نے بھی ماحول بنا رکھا تھا لیکن ایک صفر سے بظاہر آسان شکست کے ساتھ ایران عالمی مقابلے سے بھی باہر ہو گیا ہے اور اِس نتیجے (ٹیم کی کارکردگی) پر مایوس کن خاموشی چھائی ہوئی ہے حالانکہ اُمید یہ تھی کہ ایران کی ٹیم اپنی آخری حد سے زیادہ بہتر کھیل پیش کرے گی۔ قبل ازیں جب ایران نے ویلز کی ٹیم کو شکست دی تھی تو اُس وقت ایران سمیت دنیا بھر میں پھیلے ایرانیوں نے جشن منایا تھا اور لوگ خوشی میں سڑکوں پراُمڈ آئے تھے۔ اِس مرتبہ امریکہ کے خلاف مقابلے کے لئے ایران میں بڑی سکرینیں نصب کر کے کھیل براہ راست دکھانے کا بندوبست کیا گیا جبکہ قطر میں بھی جابجا بڑی سکرینوں کا انتظام کیا گیا تھا تاکہ جو شائقین ٹکٹ حاصل نہیں کر سکے اُنہیں کھیل سے لطف اندوز ہونے کا موقع مل سکے۔ میچ سے قبل اور میچ کے دوران ایرانی شائقین پرجوش تھے اور انہیں جس ایک بات کی قطعی کوئی اُمید نہیں تھی تو وہ شکست تھی لیکن کھیل کے ابتدائی 38ویں منٹ نے امریکہ کے خلاف ایران کی جیت دہرانے کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ جغرافیائی سیاسی دشمنوں کے درمیان کئی دہائیوں طویل سرد جنگ نے اِس پہلے مرحلے کے مقابلے جسے ’رن اپ میچ‘ بھی کہا جاتا ہے کو ”تمام فٹ بال میچوں کی ماں“ سے متعارف کرایا لیکن ایرانی ٹیم کی جانب سے کھیل
مطلوبہمعیار پر پورا نہیں اُتر سکا اور شائقین پچ پر دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں میں دوستانہ ماحول دیکھ کر الگ سے حیران ہوئے۔ شائقین کا خیال تھاکہ ’گھمسان کا رن‘ پڑے گا لیکن دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں نے اپنے ممالک کی سیاست کو کھیل سے الگ رکھا اور ایسا کئی مرتبہ دیکھنے میں آیا کہ جب ایران کا کوئی کھلاڑی گرتا یا امریکہ کا کھلاڑی گرتا تو دوسری ٹیم کے کئی کھلاڑی اُس کی طرف لپکتے۔ فٹ بال کے کھیل میں اِس طرح کا رویہ بہت ہی شاذونادر دیکھنے میں آتا ہے بلکہ فٹ بال کا کھیل تو شروع اور ختم غصے پر ہوتا ہے۔ ایرانی کھلاڑیوں نے کھیل کی ناکافی تربیت اور وسائل کے باوجود پوری طاقت کے ساتھ مقابلہ کیا بالخصوص اُنہوں نے دوسرے ہاف میں اچھی خاصی محنت کی یہی وجہ تھی کہ اگرچہ امریکہ بمقابلہ ایران ورلڈ کپ فائنل میچ نہیں تھا لیکن اِس کے باوجود بھی اِس مقابلے کی خبریں شہ سرخیوں میں لگائی گئیں کیونکہ اس مقابلے کی علامتی اور سیاسی اہمیت دونوں ممالک کے لئے بہت زیادہ تھی۔ ذہن نشین رہے کہ امریکہ اور ایران کے سفارتی تعلقات
گزشتہ چالیس سال سے منقطع ہیں اور امریکہ کی جانب سے دباؤ کی وجہ سے ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد ہیں۔ ایران کی معیشت مشکلات سے گزر رہی ہے جہاں 1 امریکہ ڈالر کی قیمت ’42 ہزار 600 ایرانی ریال‘ ہیں جبکہ پاکستان کے انٹرا بینک میں ڈالر کے مقابلے ایک پاکستانی روپیہ ’226 روپے‘ کا ہے!ایران کی فٹ بال ٹیم نے کھیل کے دوسرے ہاف (45منٹ) نے متعدد مواقعوں پر کم سے کم ایک گول کرنے کی کوشش کی لیکن امریکہ نے پہلا گول کرنے کے بعد باقی ماندہ کھیل دفاعی طور پر کھیلا اور زیادہ تر وقت بال کو اپنے پاس اِس لئے بھی رکھا کہ وقت ضائع ہو۔ اگر ایران مقابلہ ایک ایک سے برابر کرنے میں کامیاب ہو جاتا تب بھی وہ ورلڈ کپ کے اگلے مرحلے کے لئے ’کوالیفائی‘ کر لیتا لیکن اِس سلسلے میں ہر کوشش ناکام رہی اور اعصاب پر کنٹرول کرتے ہوئے ایرانی کھلاڑیوں نے غصے یا اشتعال کا مظاہرہ نہیں کیا‘ شاید وہ گھر سے یہی سوچ کر آئے تھے کہ مقابلہ اپنے نام کرنے سے زیادہ اہم یہ بات ہے کہ کھیل کی روایات میں برداشت اور اچھے کھیل کے ذریعے ایک نئے باب کا اضافہ کیا جائے۔ ایرانی کھلاڑیوں پر یقینا دباؤ بہت تھا اور وہ جانتے تھے کہ پوری دنیا اُنہیں دیکھ رہی ہے اور عالمی فٹ بال مقابلوں میں سب سے زیادہ گول کرنے والے دوسرے نمبر کے کھلاڑی کا تعلق بھی ایران ہی سے ہے اور جہاں تک ایران کے فٹ بال کھلاڑیوں کی بات ہے تو اُنہوں نے کھیل کو سیاست سے الگ رکھا اور اِسے بطور نفرت پھیلانے کے ہتھیار کے استعمال نہیں کیا۔ یہی بہتر طرزعمل ہے اور کھیل جس قدر سیاست سے دور رہے‘ یہ اُتنا ہی بہتر رہتا ہے۔