فیفا فٹ بال ورلڈ کپ کا پہلا مرحلہ (راؤنڈ آف 16) مکمل ہو چکا ہے جس کے دوران کئی دلچسپ مقابلے دیکھنے کو ملے تاہم اُمید ہے فٹ بال کے یہ عالمی مقابلے اب سنسنی خیز مرحلے میں داخل ہوں گے۔ مکمل ہوئے مرحلے میں ایک لمحہ تو ایسا بھی آیا جب اسپین اور جرمنی دونوں ہی ٹورنامنٹ سے باہر ہونے والی تھیں۔ سچ پوچھئے تو جب تک یہ عالمی کپ چلے گا تب تک سنسنی خیزی کیلئے کوئی فلم دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ سردیوں کی نصف شب‘ جب ہر طرف خاموشی کا راج ہوتا ہے اور رات بارہ بجے ’گروپ ای‘ کے مقابلوں میں جرمنی اور کوسٹاریکا ٹکرائیں جبکہ دوسرے میچ میں اسپین کا مقابلہ جاپان سے ہو تو شائقین کے احساسات لفظوں میں بیان نہیں کئے جا سکتے۔ فیفا ورلڈ کپ کے اب تک کے مقابلوں میں جرمنی اور اسپین نے مضبوط ٹیمیں ہونے کا ثبوت اِس طرح دیا ہے کہ انہوں نے میچ کے ابتدائی لمحات میں ہی گول اسکور کرکے برتری حاصل کی۔ اِسی طرح ’گروپ ای‘ میں اگر اسپین اپنا مقابلہ برابر کرتا تو جاپان کے ساتھ جرمنی گول کے فرق سے آگے ہونے کے باعث اگلے مرحلے میں پہنچ جاتا لیکن اگر جاپان یہ میچ اسپین کے خلاف جیت جاتا تو یہاں جرمنی کے گول کا موازنہ اسپین کے گولز سے ہوتا جو پہلے ہی کوسٹاریکا کے خلاف سات صفر کی فتح کے بعد پہاڑ جیسا فرق کھڑا کرچکے تھے اور یہاں تک پہنچنا جرمنی کیلئے ناممکن تھا خیر دونوں میچوں کے اختتام تک پہنچے اور جاپان کی جیت نے جرمنی کے گھر واپسی کے ٹکٹ کٹوا دیئے۔ اسپین نے ہار کے باوجود ناک آؤٹ مرحلے میں جگہ تو بنا لی لیکن وہ گروپ کے ٹاپ پر براجمان نہ ہوسکی جبکہ دوسرے میچ میں جرمنی کی ٹیم جیت کے باوجود عالمی کپ سے باہر ہونے کے دکھ میں افسردہ نظر آرہی تھی۔ ایک اور دلچسپ حقیقت یہ بھی تھی کہ جرمنی اور کوسٹاریکا کے میچ میں فیفا نے خواتین ریفریز کو میدان میں اتارا۔ کھیل میں مساوات کو فروغ دینے کے لئے فیفا کا یہ قدم انتہائی غیرمعمولی اور فٹ بال کی تاریخ میں نئے باب کا اضافہ ہے؛جرمنی کے عالمی مقابلوں سے باہر ہوتے ہی تھومس مولر جیسے بڑے جرمن کھلاڑی کا عالمی کپ کیریئر بھی اختتام کو پہنچا ہے‘اس سے قبل ہونے والے ’گروپ ایف‘ کے مقابلوں میں بلجیئم عالمی کپ کی دوڑ سے باہر ہوگیا دنیائے فٹبال کی دوسرے نمبر کی بہترین ٹیم اگر عالمی کپ کا حصہ نہیں رہی تو اِس سے شائقین یقینا افسردہ ہوں گے جنہیں جرمنی سے زیادہ اچھے کھیل کی توقع تھی‘ کروشیا کے خلاف کھیلے جانے والے میچ میں بلجیئم کو ہر صورت فتح حاصل کرنی تھی جبکہ کروشیا کے لئے ایسا نہیں تھا اور اس کے لئے اگلے مرحلے تک
جانے کیلئے یہ کھیل برابر کرنا بھی کافی تھا‘ ایسا نہیں تھا کہ بلجیئم نے اچھا کھیل نہیں کھیلا لیکن کوئی ایک دن ایسا بھی ہوتا ہے جو اچھے سے اچھی ٹیم کے لئے خراب ثابت ہوتا ہے۔ ابتدا ء میں بلجیئم کا کھیل کافی تیز رہا‘ گول کیپر کورٹوا تک پہنچنے کے لئے پہلے دفاع کی بہترین فارمیشن کو توڑنا پڑ رہا تھا جبکہ بلجیئم کے کھلاڑی کروشیا کی پاسنگ میں مداخلت بھی کررہے تھے۔ دوسرے ہاف میں متبادل کے طور پر آنے والے ’لوکاکو‘ نے ایسے اہم مواقع گنوائے جن کا افسوس انہیں زندگی بھر رہے گا۔ یوں بلجیئم کی گولڈن جنریشن کا عہد اختتام کو پہنچا جبکہ کوچ روبرٹو مارٹینز نے بلجیئم کی کوچنگ سے دستبردار ہونے کا اعلان بھی کردیا۔ اس میچ کا دلچسپ لمحہ وہ تھا جب کروشیا کو پینلٹی مارنے کا موقع ملا۔ کروشیا کی پینلٹی لینے لوکا موڈرچ آئے جبکہ ان کے سامنے بلجیئم کے گول کیپر کورٹوا تھے۔
یہ دونوں کھلاڑی کلب ریال میڈریڈ میں ساتھ کھیلتے ہیں‘ اس لئے سب اس پینلٹی کا انجام دیکھنا چاہتے تھے لیکن بلجیئم کے چیلنج پر ریفری نے چیک کیا تو جب گول کا موو بنا تھا اس وقت کروشیا کے جس کھلاڑی کو گرایا گیا‘ وہ آف سائیڈ پر تھا جس بنا پر پینلٹی واپس لے لی گئی یوں ایک دلچسپ اور اہم لمحہ نہیں دیکھا جا سکا۔ سینتیس سالہ لوکا موڈرچ کا کروشیا کے لئے مذکورہ 158واں میچ تھا اور وہ اس میچ کے بہترین کھلاڑی بھی قرار پائے۔ دوسری جانب مراکش اور کنیڈا کے مقابلے میں کنیڈا کو نہ صرف شکست ہوئی بلکہ مراکش ناک آؤٹ مرحلے میں چلا گیا 1998ء کے بعد سے گروپ مراحل میں ٹاپ کرنے والی یہ پہلی افریقی ٹیم بننے کا اعزاز حاصل کر گئی ہے جو اِن کی محنت اور جذبے سے کھیل کی عکاسی ہے۔اب آتے ہیں اُس بات کی طرف جو اِس مرتبہ (دوہزاربائیس) ورلڈ مقابلے میں پہلی بار دیکھنے کو ملی ہے۔ خواتین ریفری کے علاؤہ اعدادوشمار دکھانے کے لئے ’انہینسیڈ فٹ بال انٹیلی جنس (Enhanced Football Intelligence)‘ نامی سافٹ وئر کا تجربہ کیا گیا ہے جس کے کھیل (میچ) کے دوران اور کھیل کے بعد اُس سے متعلق 11 نئی قسم کے اعدادوشمار گرافکس (graphics) کی مدد سے دکھائے جاتے ہیں جو اِس سے پہلے فٹ بال براڈکاسٹ کا حصہ نہیں ہوتے تھے۔ اِس طرح کی معلومات سے نہ صرف کسی ٹیم بلکہ کھلاڑیوں کی انفرادی کارکردگی اور کھیل کے لئے اپنائی گئی کسی خاص تکنیک کے بارے میں گہرائی سے جاننے کا موقع ملتا ہے۔ قبل ازیں اِس قسم کی معلومات صرف ماہر تجزیہ کار ہی دیا کرتے تھے جسے ’کمپیوٹروں کی مصنوعی ذہانت‘ کو استعمال کرتے ہوئے اور کھیل کی حکمت عملی کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں کیبل نیٹ ورکس کے ذریعے فٹ بال مقابلوں کو دیکھنے والے جدید قسم کے ’گرافکس‘ کا بڑا حصہ نہیں دیکھ پاتے لیکن ڈش اور ’ڈائریکٹ ٹو ہوم (ڈی ٹی ایچ)‘ کے ذریعے مقابلے دیکھنے والے ’انہینسیڈ فٹ بال انٹیلی جنس‘ سے خوب محظوظ ہوتے ہیں۔