آج کل شادیوں کا زور ہے‘ ہفتہ کی ساتوں شامیں اور دوپہریں شادی ہالوں کی رونقیں بڑھا رہی ہیں۔کوئی علاقہ ڈھول ڈھمکوں کی آوازوں سے خالی نہیں ہے۔فائرنگ کی آوازیں الگ ہیں یہ ڈر کسی کو نہیں کہ کوئی اندھی گولی کسی کا گھراجاڑ سکتی ہے مگر گولیوں کی تڑ تڑ ہے اور شور شرابہ ہے۔کہیں باراتیں شہر سے باہر جا رہی ہیں اور کہیں شہر کے اندر بارات کی گاڑیوں کا جلوس آرہاہے ایک میلہ ہے ایک رونق سی لگی ہے۔سردیوں کی آمد نے الگ رنگ دیا ہے‘ دھوپ بھی چھن کر خوب آ رہی ہے۔جب تلک بارشیں نہ ہوں اس سردی میں تپش کو انجوائے کرنے کے نت نئے انداز ہیں بچے بوڑھے جوان خواتین سرشار دکھائی دیتی ہیں‘سب خوشی سے نہال ہیں‘شادی ہال بڑے بجٹ کی کسی کامیاب فلم کی طرح ہاؤس فل جا رہا ہے۔کہیں سے خواتین کا جلوس کھانا تناول کر کے سڑکوں پر ایک طرف سے ہو کر جا رہاہے اور کہیں سے دوپہر ہو یا رات کااندھیراہو عورتوں کے غول شادی ہال سے نکل کر قریب و دور گھروں کو لوٹ رہے ہیں‘راستے میں دیکھو تو سرِ شام کہیں یہ منظر بھی ہے کہ ڈھول کی تھاپ پر لڑکے خوشیاں منا رہے ہیں‘محو رقص جوان یہ نہیں دیکھتے کہ رش بنا دیا ہے اور سڑک بلاک کر دی ہے۔ دورتک گول چوک میں رش ہے اور ٹریفک الجھی ہوئی ہے یہ فقط موٹر سائیکل والوں کو آگے جا کر بچ بچا کر اوپر نیچے ہو کر معلوم پڑتا ہے کہ بیچ سڑک کے بینڈ بج رہے ہیں اور لڑکے ٹولیوں کی شکلوں میں ناچ رہے ہیں خوشیاں سب کو عزیز ہوتی ہیں اور کاش زیادہ ہو جائیں او رسب کو ملیں مگر اس میں دوسروں کی مجبوریوں کا بھی خیال کرنا چاہئے اتنی خوشی نہ ہو کہ دوسروں کو غم میں مبتلا کر دیں راستہ تو بند نہ کیاجائے۔ ہوائی فائرنگ تو نہ کی جائے۔ خوشی سب کی ہوتی ہے اور سب کو ہوتی ہے مگر دوسروں کو تکلیف و زحمت میں مبتلا ئے زخم کردینا تو انصاف نہیں ہے۔کوئی گولی جو آپ نے اوپر ہوا میں بھیجی وہ ٹھنڈی ہو کر اوپر کے اوپر تو غائب نہیں ہو جائے گی وہ تو اس سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ نیچے آکر کسی کو سر میں کسی کو کاندھے میں لگ سکتی ہے۔حتیٰ کہ گھر کے کمرے میں بیڈ پر لیٹی دادی اماں کو ٹانگ پر لگ گئی وہ باقی عمر کے لئے معذور ہو گئی راستہ بند ہوگیاتو ٹریفک الجھاؤ کا شکار ہوگئی اور لوگ پریشان ہو گئے‘ ان لوگوں کو بھی بھول جاتا ہے کہ ان کی شادیوں میں بھی انہوں نے ایسا ہی کیا تھا۔ اب وہ لوگ اس بات کا برامنا رہے ہیں کہ بارات والوں نے راستہ بند کردیا ہے۔ ہم دوسرے پر اعتراض کرتے ہیں مگر اپنی باری آئے تو سب کچھ بھول جاتے ہیں۔جب سڑکوں پر ہنگامہ ہوتا ہے تو وہ ہنگامہ کھڑا کرتے ہیں کہ پھر ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ ”ہنگامہ ہے کیوں برپا“اندر کھانے کے ہال میں دو کرسیوں پر خود بیٹھ کر دوخالی کرسیوں پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ایک پر رومال رکھ لیتے ہیں اور دوسری پر کسی معصوم سے چڑیا جیسا معدہ رکھنے والے بچے کو بٹھا کر پورے خوانچہ پر نگاہ رکھتے ہیں‘یہی ہمارے رویے ہیں جن سے ہماری شناخت بنتی رہتی ہے مگر ہمیں احساس نہیں ہوپاتا کہ ہماری شناخت میں آہستہ آہستہ کون سا زہر گھل رہا ہے جو ہم خود کویوں بے طرح بدنام کئے جا رہے ہوتے ہیں۔بہت بڑے ہال میں اتنے لوگ نہیں ہوتے جتنا کہ افراتفری کے عالم میں اندر داخل ہوئے ہوتے ہیں‘ اس موقع پر بعض تمیز دار وں کو تو اپنا آپ برا لگتا ہے کیونکہ نہ تو کھانا کہیں بھاگا جا رہا ہوتا ہے اور نہ ہی ہم کہیں بھاگے جائیں گے‘سب کچھ سب کو ملتا ہے اور اسی وقت ملتا ہے مگر جانے ہم میں جلدی کا یہ عنصرکیوں گھر کر گیا ہے‘بعض شادی ہالوں میں کھانے تقیسم کرنے والا عملہ بھی تیزی کامظاہرہ کرتا ہے‘جوان لڑکے ہوتے ہیں مگر دوڑ دوڑ کر جوتوں کی آواز نکال کر مہارت سے دھپ دھپ کر کے بھاگے آتے ہیں اور سر پر خوانچہ ہوتا ہے‘ایسے میں اگر کسی کاپاؤں پھسل گیاتو وہ ان مہمانوں پر خوانچہ سمیت جا گرے گا کہ جن کے لئے یہ لوگ کھانا تقیسم کر رہے ہیں‘یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں جن پر ہم توجہ نہیں دیتے مگر یہ ہمارا مزاج بناتی ہیں اور ہماری عادات کو استوار کرتی ہیں اور یہی ہماری شناخت بن جاتی ہیں۔